السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گلاسکو سے الطاف حسین صاحب پوچھتے ہیں
اپنے رشتہ داروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ کسی کام میں مدد کریں گے یا فلاں کام کردیں گے۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
اگر کوئی شخص مجھ پر حملہ کرتا ہو اور میں کسی ساتھی یا دوسرے آدمی کو مدد کے لئے پکاروں’ کیا یہ پکارنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مومن بھروسہ اور توکل تو کامل طور پر اللہ ہی پر کرتا ہے مگر دنیاوی اسباب کا استعمال کرنا یہ قطعی توکل کے خلاف نہیں اور باہمی تعاون کے طور پر رشتہ داروں کا ایک دوسرے کی مدد کرنا یا کام آنا یہ کوئی بری بات نہیں۔ قرآن حکیم میں عزیز و اقارب سے نیک سلوک کرنے کی بھی تلقین کی گئی ہے ۔ اب اگر مساکین رشتہ دار کسی آسودہ حال رشتہ دار سے تعاون و خیر خواہی کی امید رکھتے ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ہاں کسی پر کامل بھروسہ کر لینا یا رشتہ داروں کو معبود حاجت روا کی طرح بنا لینا یہ درست نہیں ہے۔
دنیاوی اسباب کو استعمال کرنابھی ایمان کے تقاضوں میں سے ہے۔ جس طرح آگ پانی اور ہوا کے اسباب مختلف ضرورتوں میں انسان استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح دوسرے موجود اور زندہ دنیاوی اسباب استعمال کرنے جائز ہیں۔ کسی زندہ اورموجود آدمی سے کوئی چیز طلب کرنا’ تعان کے لئے بلانا یا اس کی مدد حاصل کرنا’ یہ اسباب دنیا میں سے ہے۔ اس میں کوئی مخالفت نہیں اور نہ ہی یہ غیر اللہ کی پرستش و عبادت کےزمرے میں آتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب