السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہیلی فیکس سے محمد یونس صاحب لکھتے ہیں کہ
(۱)کیا کوئی مرشد پکڑنا جائز ہے ؟ اور وسیلہ کی کیا حقیقت ہے؟
(۲) کیا قصداً سفر کرکے کسی ولی اللہ کی قبر پر جانا جائز ہے ؟ کہ وہاں جاکر اس کے لئے دعاکریں گے۔
(۳) چلہ کشی جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱)’’مرشد‘‘ عربی لفظ ہے جس کامعنی ہےہدایت کرنے والا’ سیدھا راستہ دکھانے والا۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کو اچھی بات کی نصیحت کرتا ہےاسے غلط راستے سےموڑ کر نیکی کے راستے پر چلاتا ہے تو وہ گویا کہ اس کامرشد ٹھہرا اور اس قسم کے مرشد کے لئے نہ تو یہ ضروری ہےکہ وہ کسی بہت بڑی گدی کا مالک ہو یا کوئی بڑی خانقاہ اس کے کنڑول میں ہو یا خاص قسم کا لباس پہنتا ہو یا کسی خاص شکل و صورت کو اختیار کئے ہوئے ہو۔ اس لغوی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص بھی علم ہدایت اور نیکی کی باتیں بتاتا ہو یا کسی شخص کو اس کی وعظ و نصیحت سے فائدہ ہوا ہو تو وہ اس کا مرشد ہے۔
جہاں تک مرشد پکڑنے کی اصطلاح کا تعلق ہے تو قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ تم مرشد تلاش کرکے اسے پکڑلو۔ ہاں قرآن میں یہ ضرور آیا ہے کہ
﴿فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٧﴾... سورة الانبياء
’’یعنی علم والوں سے وہ باتیں پوچھ لیا کرو جو تم نہیں جانتے۔‘‘
اس آیت سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں ایک یہ کہ دین و ہدایت کی جن باتوں کا خود علم نہ ہوان کےبارے میں دوسروں سے راہنمائی حاصل کیا کریں۔ یعنی اگر مرشد کی ضرورت پڑجائے تو کسی ایسے شخص کے پاس جائیں جو علم دین سے واقف ہو اور دین کی تعلیمات کی روشنی میں وہ تمہاری راہنمائی کرے۔ تو گویا کہ کسی جاہل کے پاس رشدوہدایت کےلئے جانا ہرگز درست نہیں۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی کسی دینی مسئلے کی ضرورت محسوس ہو یا کسی مسئلےکو سمجھنے میں دقت پیش آئے تو اہل علم کی طرف رجوع کیا جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے۔
رسول اکرم ﷺ سے بھی ایسی کوئی بات ثابت نہیں حالانکہ آپ کا ئنات کے مرشد اعظم ہیں آپ سے بڑا کوئی مرشد نہیں لیکن آپ نے اپنے الوداعی خطبے میں امت کو جو وصیت کی وہ یہ تھی کہ ‘‘میرے بعد دو چیزوں کو تھامے رکھنا۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔’’ ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ میرے بعد میرے صحابہ کےطریقے پر مضبوطی سےقائم رہنا۔ جب آپ دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ تاکید فرما رہے ہیں کہ میرے بعد تمہاری رشدوہدایت کا ذریعہ کتاب وسنت ہوں گے اب اگر موجودہ مروجہ شکل میں کسی مرشد کا پکڑنا ضروری ہوتا تو آپ اس کی ضرور وضاحت فرماتے۔
بہرحال کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کی طرف بلانے والے علماء اور صلحاء ہی مرشدین حق ہیں نیکی اور خیر کےکاموں میں ان سے راہنمائی حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن مرشد بنانے یا مرشد پکڑنے کی جو شکل اس وقت ہمارے ہاں لوگوں میں رائج ہے یہ دو لحاظ سے ہمارے نزدیک درست اور جائز نہیں ایک تو اس لئے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس کو مرشد پکڑ لیا اب یہ قیامت کےدن بھی ہمارے کام آئے گا اور عذاب سے چھڑائے گا اور بعض جاہل لوگ تو اس خیال سے منکرات کرتے رہتے ہیں کہ ہم نے فلاں کو مرشد بنالیا ہے وہ جانے اور اللہ ہمیں نمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے اور ایسے لوگ فرائض ترک کردیتے ہیں’ کبائر تک کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن مرشد کو نذرانے اور شیرینیاں پیش کرتے ہیں اس خیال سے کہ وہ قیامت کے دن چھڑالے گا۔ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے تو نہیں ڈرتے لیکن خود ساختہ پیر یا مرشد کی نافرمانی سے گھبراتے ہیں اور اس کی خدمت میں کوئی نذرانہ پیش نہ کرنا اسے بھی اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور اس کو ہر قیمت پر راضی رکھتے ہیں جب کہ نماز روزے جیسے فرائض کی پرواہ تک نہیں کرتے۔ اگرمرشد پکڑنے کا یہ مفہوم ہے یا یہ طریقہ ہے تو یہ سراسر باطل ہے اور شرک کےکاموں میں سے ہے۔ کیونکہ اللہ کے ہاں انسان کے اعمال اس کا اصل سرمایہ ہوں گے۔کوئی اللہ کےعذاب سےکسی کو نہ چھڑائے گا اور اس خیال سے نافرمانیاں کرنا کہ فلاں مرشد چھڑالے گا یہ سراسر جہالت ہے۔ رسول اکرمﷺ جب اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ الزہراؓ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ ؓ سے یہ کہتے ہیں کہ عمل کر لو عمل کرلو۔ عمل کے بغیر اللہ کے یہاں کامیابی نہ ہوگی تو آج کسی خود ساختہ ولی کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ شش ماہی یا سالانہ نذرانے وصول کرنے کے بدلے میں لوگوں کو اللہ کے عذاب سے بچانے کے وعدے کرلے۔
مرشد پکڑنے کا موجودہ انداز اس لئے بھی جائز نہیں کہ اس کےلئے لوگ علم و فضل یا تقوی و نیکی نہیں دیکھتے بلکہ وہ دیکھتے ہیں کہ وہ کتنی بڑی گدی پر بیٹھا ہے ۔ وہ کس پیر یا مرشد کی نسل سے ہے یا اس کے تعویز پھونکیں کیا کرشمے دکھاتی ہیں جبکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کے مطابق جو اللہ سے زیادہ سے زیادہ ڈرنے والا نیکی کرنے والا برائیوں سےرکنے والا اور لوگوں سے نیکی اور بھلائی کرنے والا ہوگا وہ اللہ کا مقرب’ متقی اور ولی ہوگا مگر اس دور میں یہ مرشدین کے پجاری نہ نماز روزہ دیکھتے ہیں نہ عمل و کردار کی ان کے نزدیک اہمیت ہوتی ہے بلکہ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس کادم اور پھونک یا بعض شعبدے لوگوں میں کس قدر مشہور یا مقبول ہیں اور شرکیہ اعمال کے عادی یہ لوگ بعض اوقات اس حد تک چلے جاتےہیں کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی اسی طرح کرشمہ دکھادے تو اس کے ہاں بھی حاضری دینا شروع کردیتے ہیں۔ یہ سب جہالت اور گمراہی کےکام ہیں اور مرشد پکڑنے کا یہ تصور سراسر غیر اسلامی ہے۔ ایسے اعمال سے بچنا ضروری ہے۔
وسیلہ: جہاں تک وسیلے کا تعلق ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں ایک مشروع اور ایک ممنوع۔
اگر وسیلہ سے مراد یہ ہےکہ اللہ اور اس کی مخلوق کےدرمیان کوئی ایسا وسیلہ ہونا چاہئے جس کے ذریعے یہ پہچان ہو کہ کون سے کام اللہ کو پسند اورکون سے ناپسند ہیں اور کن کاموں کے کرنے کا اس نے حکم دیا اور کن کاموں سے اس نے روکا۔ یہ پہچان کرانے کےلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول دنیا میں بھیجے اور ان پر کتابیں بھی نازل کیں تاکہ لوگوں کےسامنے حق و باطل کا فرق واضح ہو جائے گو یا اللہ کی کتاب اور اللہ کےنبی کی تعلیمات’ یہ وسیلہ اور ذریعہ ہیں دنیا میں صحیح اور کامیاب زندگی گزارنے کے لئے۔ وسیلے کا یہ مفہوم جائز اور مشروع ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ کی تعلیمات سے راہنمائی کےبغیر کوئی شخص بھی نیکی کا راستہ معلوم کرسکتا ہے نہ برائی سے بچنے کی اسے پہچان ہوسکتی ہے اور اس وسیلے کےلئے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں نبی اور رسول بھیجے جنہوں نے مخلوق کو خالق تک پہنچنے کا راستہ بتایا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے صحیح طریقے بتائے۔
وسیلے کی دوسری شکل ممنوع ہے اور ناجائز ہے اور اس وقت رائج بھی ہے وہ یہ سمجھنا کہ اللہ تک کسی واسطے یا وسیلے کے بغیر رسائی ممکن نہیں نہ وہ دعا سنتا ہے اور نہ ہی براہ راست اس تک کوئی بات پہنچائی جاسکتی ہے جب تک کہ کسی نیک یا بزرگ کا درمیان میں واسطہ نہ ڈالا جائے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۸۶ میں فرمایا کہ ‘‘ اے نبی ﷺ جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو بتا دیں کہ میں قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے’’ یہاں اللہ سے مانگنے یا اس کی عبادت کے لئے کسی وسیلے کو ضروری قرار نہیں دیا گیا۔
بعض جہلا یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر کسی حاکم یا بادشاہ تک کسی واسطے یا وسیلے کے بغیر کوئی آدمی نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تو احکم الحاکمین ہے اتنی بڑی ذات تک بغیر وسیلے کے پہنچنا کیسے ممکن ہے یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت اور پہچان نہ ہونے کی دلیل ہے کہ دنیا کےبادشاہوں اور افسروں سے اس ذات کو ملاتے ہیں۔ یہ بادشاہ اور افسر نے خبر ہیں جبکہ اللہ کی ذات باخبر ہے۔ یہ دوسروں کے بتانے کے محتاج ہیں جب کہ اللہ کی ذات کسی کے بتانے کی ہرگز محتاج نہیں۔ یہ تو اپنے قریب کی باتوں کو بھی نہیں جانتے جب کہ اللہ دلوں کے بھید بھی جانتا ہے’ وہ کسی وسیلے کا ہرگز محتاج نہیں ’ وہ ان واسطوں سے بے نیاز ہے۔ وہ تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہاں کسی سیڑھی یا واسطے کی نہ گنجائش ہے نہ ضرورت۔وسیلہ کا یہی وہ غیر مشروع طریقہ ہے جو انسان کو شرک میں مبتلا کردیتا ہے۔
(۳)جہاں تک قصداً ثواب کی نیت سے کسی مزار یا قبر کی زیارت کے لئے سفر کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں رسول اکرمﷺ کا یہ فرمان سامنے رہنا چاہئے:
«کنت نهیتکم عن زیارة القبور فذوروها فانها تذهد فی الدنیا و تذکر الاخرة»(جامع الترمذي ج۱ کتاب الذبات زیارة القبور:۳۷۶)
آپﷺ نے فرمایا:’’میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا ان کی زیارت کرو۔ اس سے دنیا کی رغبت کم ہوتی ہے اور آخرت یاد آتی ہے۔‘‘
بلاشبہ اس حدیث میں قبروں کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کےساتھ رسول اللہﷺ کےجو کڑی شرط لگائی ہے وہ انتہائی اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ قبر کی زیارت سے غرض اور مقصود یہ ہونا چاہئے کہ دنیا کی بے ثباتی کا یقین پختہ ہو’ اس سے رغبت کم ہو اور آخرت یاد آجائے۔
دوسری حدیث میں یہ دعا پڑھنے کا حکم ہے۔
السلام علیکم اهل دیار قوم مؤمنین وانا شاءالله بکم لاحقون۔ ( مسلم مترجم ج۱ کتاب الجنائز ص ۳۰۴)
’’اے قبروں میں بسنے والے مومنین تم پر اللہ کی سلامتی ہو بلاشبہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں‘‘
معلوم ہوا قبر کی جائز زیارت کی پہلی شرط یہ ہے کہ آخرت یاد کرنا مقصود ہو اور دوسری قبر والوں کے لئے مغفرت و سلامتی کی دعا کرنے کی نیت ہو۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہےکہ موجودہ مزاروں کی جو زیارت کی جاتی ہے اس میں یہ دو شرائط کہاں تک پوری کی جاتی ہیں؟ اس وقت جن مزاروں پرلوگ جاتے ہیں تو ان میں اکثریت اس قصد یا خیال سے نہیں جاتی کہ وہاں آخرت یاد آئے گی یا بزرگوں کے لئے دعا کریں گے بلکہ یہ لوگ ان سے مرادیں مانگنے چڑھاوے چڑھانے نذریں دینے بلکہ سجدے کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ لوگ سینکڑوں میل کا سفر اس لئے کرتے ہیں کہ وہاں کچھ ملتا ہے اور ان کے ذریعے مشکلیں حل ہوتی ہیں اور وہاں حاضری دیتے ہی مصائب ٹل جاتی ہیں۔ یہ مشرکانہ خیالات ہیں۔ قبر کی زیارت کی یہ بالکل ناجائز ہے۔ یہ غلط ہے کہ یہ لوگ وہاں دعا کے لئے جاتے ہیں اس کی پہلی دلیل تو یہ ہے کہ اپنے عزیزواقارب کے قبرستان ان کے نزدیک ہوتے ہیں۔ برس ہا برس گزر جاتے ہیں مگر ان لوگوں کو ان کی قبروں کی زیارت یا دعا کی توفیق نہیں ہوتی اس لئے دعا کے لئے کوئی نہیں جاتا بلکہ پوجا کے لئے جاتے ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ کے اولیاء اور بزرگان دین سے زیادہ گناہ گار اور اپنے فوت شدہ عزیز واقارب دعا کے محتاج ہوتے ہیں ان کے لئے تو ہم دعا نہیں کرتے لیکن جنہیں پہلے ہی بخشے ہوئے اور مقربین سمجھتے ہیں ان کے لئے دوردراز کے سفر بھی کرتے ہیں اس لئے یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ لوگ وہاں ان کےلئے دعا کرنے جاتے ہیں اور پھر دعا کے لئے کسی طویل سفر کی بھی ضرورت نہیں۔ اللہ ہر جگہ سے دعا سنتا اور قبول کرتا ہے اور پھر رسول اکرمﷺ نے یہ تو فرمایا کہ مسجد الحرام’ مسجد نبویﷺ اور مسجد اقصیٰ کا قصد زیارت کے لئے کریں اور وہاں دعائیں بھی کی جائیں۔ باقی کسی جگہ کے لئے یہ ضروری قرار نہیں دیا کہ وہاں دعا کے لئے سفر کرکے جاؤ۔ بلکہ ایک لحاظ سے قصدا سفر زیارت ان تینوں جگہوں کے لئے خاص کردیاگیا ہے۔
بہرحال کسی بھی قبر پر دعا کرنامسنون طریقے سے جائز ہے اور آخرت یاد کرنے اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی غرض سے قبروں کی زیارت مشروع اور جائز ہے جب کہ باقی جو شکلیں آج کل رائج ہیں ان کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
(۳)چلہ کشی کے بارے میں سوال واضح نہیں ہے۔ قرآن یا سنت میں چلہ کشی کے مفہوم کی کوئی اصطلاح نہیں ملتی۔ اعتکاف کی شکل موجود ہی اگر کوئی شخص دنیاوی دھندوں سے کچھ دن کے لئے الگ تھلگ ہو کر اللہ کی عبادت یا ذکر کرتا ہے تو اس کی شکل اعتکاف کی ہے۔ باقی دریاؤں کے کناروں پر چلے کاٹنا’ کئی کئی مہینے کمروں میں بند ہو جانا’ بھوکے رہنا’ ایک ٹانگ پر کھڑے ہونا’ ان شکلوں کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ رہبانیت کی شکلیں ہیں جنہیں اسلام پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ مفصل جواب تو سوال کی وضاحت کے بعد ہی دیا جاسکتا ہے کہ چلہ کشی سے کیا مراد لیتے ہیں اور موجودہ دور میں چلہ کشی کی کونسی شکل ہے جس کے بارے میں آپ دریافت کرنا چاہتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب