السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
منامہ(بحرین) سے سردار محمد انور لکھتے ہیں: ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے میرے نیک بندے ( ولی اللہ) سے عداوت رکھی میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں۔’’ قرب الٰہی سے بندہ مومن کی سماعت و بصارت ’ پکڑورفتار’ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی میں آجاتی ہیں اور اس کی برکات کے باعث مومن کے اعضاء جسمانی میں گویا قوت الٰہی کام کرنے لگ جاتی ہے اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے ولی اللہ کی سفارش یا وسیلے سے مانگی ہوئی دعا کو جائز کس طرح نہ کہا جائے اور یہ شان تو اس امتی کی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جب کہ ہمارے نبیﷺ کی شان تو کہیں زیادہ ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہاں تک شفاعت اور اس کے شرعی مفہوم کا تعلق ہے تو اس بارے میں ’’صراط مستقیم‘‘ کے گزشتہ شمارے میں مفصل جواب شائع ہوچکا ہے۔ زیر نظر سوال بنیادی طور پر وسیلے کے بارے میں ہے۔ اس لئے وسیلے کی شرعی حیثیت کے بارے میں بحث سے پہلے لفظ’’الوسیلہ‘‘ کا لغوی اور شرعی معنی و مفہوم کی وضاحت ضروری ہے۔
امام راغب اصفہانی اپنی کتاب ’ مفردات القرآن میں الوسیلہ کا جو معنی تحریر کرتے ہیں’ اس کا خلاصہ یہ ہے’’ کسی شے تک رغبت سے پہنچنا‘‘
امام ابن جریر طبری وسیلہ کامعنی لکھتے ہیں: ’’اللہ سے ایسے اعمال کے ساتھ تقرب چاہنا جو اس کی خوشنودی کا باعث ہو‘‘
بعض لوگ سورہ مائدہ کی یہ آیت بھی بندوں کا وسیلہ پکڑنے کے جواز میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ ... ﴿٣٥﴾... سورة المائدة
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف جانے کےلئے وسیلہ تلاش کرو۔‘‘
حالانکہ یہاں وسیلے سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ دعا میں کسی کا واسطہ یا وسیلہ ڈالا جائے یا پھر کسی کے واسطے یا وسیلے سے عذاب سے بچ جائے۔ یہاں بھی وسیلے سے مراد عمل سے قربت حاصل کرناہے۔ علامہ ابن جریر طبری’ امام ابن کثیر’ اور امام رازی سارے اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنی آیت سے وسیلے سے مراد اعمال صالحہ کے ذریعے قرب الٰہی حاصل کرناہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے وسیلے کےمفہوم پر جو بات کہی وہ زیادہ جامع اور مفصل ہے ۔ ان کے پاس دو آدمی یہ جھگڑا لے کر آئے۔ ایک کہتا تھا کہ اللہ اور بندے کے درمیان کسی واسطے یا وسیلے کا ہونا ضروری ہے اور دوسرا یہ کہتا تھا کہ اللہ اوربندے کے درمیان کسی واسطے کی ضرورت نہیں۔ اس پر امام موصوف فرماتے ہیں:
اگر اس شخص کی مراد یہ ہے کہ اللہ اور بندے کےدرمیان کوئی ایسا واسطہ ضرور ہونا چاہئے جس سے بندوں کو یہ معلوم ہو کہ اللہ کن اعمال سے خوش ہوتا ہے اور کن اعمال کو پسند فرما کر اپنے تابعدار بندوں پر رحمتیں اور نوازشیں کرتا ہے اور وہ کون سے برے اعمال ہیں جن کی وجہ سے بندے اس کے عذاب کی گرفت میں آجاتے ہیں۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی شان کے لائق کون سے نام ہیں۔ ان چیزوں کو براہ راست جاننا عقل انسانی کےلئے ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے کسی واسطے یا وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے رسول اور نبی بھیجے جن کے ذریعے سے یہ چیزیں معلوم کرکے لوگوں نے نیک اعمال معلوم کرکے ہدایت کا راستہ پایا۔
مگر جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کیا کسی ’’غوث قطب یا دوسرے یا فرد کےبغیر اللہ تک رسائی ممکن ہے تو یہ چیز پھیل گئی ہے کہ لوگ ان بے بنیاد باتوں کو اسلام کا جزو بنا رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تک پہنچنے کے لئے یااس سے کچھ مانگنے کے لئے کسی واسطے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں‘‘
اصل میں اس مسئلے کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ یعنی وسیلے کی دو قسمیں ہیں ایک جائز اور ایک ناجائز۔
پہلی قسم جسے ہم جائز قرار دےسکتے ہیں اس میں درج ذیل صورتیں شامل ہیں:
(۱)اللہ تعالیٰ کی ذات کی پہچان’اس کی صفات کی معرفت اور اس کے احکام کا جاننا’ یہ انبیاء اور رسولوں کے ذریعے ممکن ہے۔ انسان اپنی عقل یا کسی دوسرے واسطے سے ان کا علم حاصل نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اس لئے بھیجے تا کہ وہ مخلوق الٰہی کو ان باتوں کی تعلیم دے سکیں۔
جیسا کہ ارشاد قرآنی ہے۔
﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾... سورة الجمعة
’’وہ ذات جس نے ان پڑھوں کی طرف ان میں سے رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا ہے’ ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اس سے پہلے واضح گمراہی میں تھے۔‘‘
اب یہاں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے’ یہ رسول ہی کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں اور اس لحاظ سے رسول وسیلہ ہیں اللہ اور بندے کے درمیان اور جب رسول دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی تعلیمات اس وسیلے کاکام دیتی ہے اور یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد اللہ کی ذات اور اس کی صفات کی پہچان کے لئے ہمارے پاس قرآن و حدیث اور ان کے ذریعے اس کی معرفت اور اس کی اطاعت کے طریقے ہم معلوم کرسکتے ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن و سنت بھی ہمارے لئے وسیلے کا کام دیتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ انبیاء کرام جب زندہ ہوتے ہیں تو ان کے ذریعے دین و شریعت کی باتیں اور احکام الٰہی حاصل کرتے ہیں اور جب وہ فوت ہوجاتے ہیں تو پھر ان کی تعلیمات ہمارے لئے اس وسیلے کا کام دیتی ہیں۔
(۲)جائز وسیلے کی دوسری قسم دعا ہے یعنی کسی بھی زندہ مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لئے دعا کرنا یہ مسلمان کے اخلاقی فرائض میں بھی شامل ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے نیکی اور خیر کی دعا کرے اور ایک لحاظ سے اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگنے اور طلب کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ بھی ہے۔نبی کریمﷺ صحابہ کرام کے لئے دعا فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کے لئے دعا کی درخواست بھی کرتے اور دعائیں بھی کیا کرتےتھے۔
مگر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ دعا کا یہ وسیلہ صرف زندوں تک محدود ہے مرنے کے بعد کسی سے دعا کی امید رکھنا قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ بعض لوگ قرآن حکیم کی یہ آیت پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ انتقال کے بعد بھی لوگوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔
آیت قرآنی ہے:
﴿جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ... ﴿٦٤﴾... سورةالنساء
’’کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو وہ اللہ سے بخشش طلب کریں اور رسول ان کے لئے بخشش مانگے۔‘‘
اب یہ رسول اکرمﷺ کی حیات مبارکہ کی بات ہے کہ جب آپﷺ کے پاس آکر وہ خود بھی بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے’ کیونکہ جب آپﷺ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ صحابہ کرام بخشش کی دعا کے لئے جوق درجوق آپ کے روضہ اقدس پر آتے ہوں یا اسکے بعد بھی آپﷺ سے بخشش کی دعا کی درخواست کرتے ہوں۔ اس بات کا سیرت صحابہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
(۳)نیک اعمال کا وسیلہ بھی جائز ہے یعنی کوئی آدمی اللہ سے کچھ مانگنے کےلئے یا مصیبت کے ٹالنے کے لئے کسی نیکی اور اچھے عمل کا حوالہ دیتا ہے اور اسے بطور وسیلہ پیش کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ صحیح حدیث میں ان تین آدمیوں کا واقعہ مذکور ہے جو ایک غارمیں پھنس گئے تھے تو انہوں نے اپنے اپنے نیک عمل جو انہوں نے خالص اللہ کی رضا کےلئے کئے تھے ان کا واسطہ دے کر اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کہ دعا کی تھی۔ اس سے نیک عمل کا وسیلہ ثابت ہوجاتا ہے۔
(۴)اللہ تعالیٰ کی صفات کا وسیلہ ڈالنا بھی جائز ہے یعنی کوئی آدمی یہ کہتا ہے کہ اے اللہ تو مجھے اپنی رحیمی و کریمی کے صدقے معاف کردے۔ یا وہ کہتا ہے کہ اللہ میں تجھے تیرے غفور و رحیم ہونے کا واسطہ دے کر تجھ سے فلاں بات طلب کرتا ہوں یا فلاں چیز مانگتا ہوں ’ تو یہ وسیلہ بھی جائز اور مشروع ہے۔
(۵)علم وہنر حاصل کرنے کےلئے کسی استاد کے آگے زانوئے تلمذطے کرنا یا کسی کتاب کا پڑھنا یہ بھی جائز وسائل ہیں ۔انسان جب تک کوئی استاد نہیں پکڑے گا علم حاصل نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح حصول علم و فن کے لئے کتابوں اور دوسرے ذرائع کا استعمال کرنا بھی جائزومشروع ہے۔ دینی ودنیاوی علوم کے حصول کے لئے مختلف وسائل کا مہیا ہونا بھی بہرحال ضروری ہوتا ہے۔
(۶)اللہ تعالیٰ نے اس نظام کائنات کو چلانے کے لئے جو وسائل پیدا فرمائے ہیں ان کا استعمال کرنا بھی جائز بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے جیسے کھانا پکانے کے لئے آگ کاجلانا’ سفر کے لئے سواری کا استعمال کرنا’پیاس بجھانے کے لئے پانی پینا’ بچوں کی پیدائش کے لئے خاوند بیوی کاملاپ’ یہ اور اس طرح کےمتعدد وسیلے ہیں جن سے دنیاوی معاملات میں ہم مستفید ہوتے ہیں۔ یہ وسیلے بھی جائز اور مشروع ہیں۔
یہ تو ہم نے وسیلے کی چند وہ صورتیں بیان کی ہیں جو جائز ہیں۔ مگر ان صورتوں کا بیان کرنا بھی ضروری ہے جو ناجائز اور غلط ہیں جن میں درج ذیل وسیلے کی مروجہ شکلیں خاص طور بھی قابل ذکر ہیں:
(۱)اللہ تعالیٰ سےدعا کرتے وقت کسی شخصیت کا درمیان میں واسطہ ڈالنا جائز نہیں چاہے وہ شخصیت نبی’ ولی’فرشتہ اور کوئی بزرگ ہی کیوں نہ ہوں۔کیونکہ شریعت میں اس کوئی ثبوت نہیں۔
ہمارے سامنے سب سے پہلے قرآن مجید ہے۔ قرآن میں جابجا انبیاءکرام کی دعائیں مذکور ہیں۔ کسی نبی کی کسی دعا میں کسی دوسرے برگزیدہ نبی کے واسطے یا وسیلے کا ذکر تک نہیں۔ اگر یہ کوئی مشروع یا جائز چیز ہوتی یا باری تعالیٰ اسے ضروری سمجھتے تو ایسی دعاؤں کا ذکر فرماتے جن میں کسی نبی کے واسطے کاذکر ہوتا۔
پھر قرآن میں دوسرے مومنین اور اللہ کے نیک بندوں کی دعاؤں کےکئی نمونے اور مثالیں موجود ہیں مگر کسی دعا میں کسی وسیلے یا واسطے کاکوئی نشان تک نہیں اور ظاہر ہے سب سے بہترین دعائیں قرآنی دعائیں ہیں اور سب سے بہتر الفاظ قرآنی دعاؤں کے ہیں۔ جب قرآنی دعاؤں کے الفاظ میں وسیلہ اور واسطہ نہیں تو ہم اپنی طرف سے دعاؤں میں یہ اضافہ کیونکر کرسکتے ہیں۔
خود نبی کریمﷺ جب اللہ سے مانگتے اور دعا کا طریقہ بتاتے تو اس میں بھی کسی واسطے کا ذکر نہیں فرماتے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا:
اذا سالت فاسئل اللہ و اذا استعنت فاستعن باللہ(مشکوة للالبانی رقم الحدیث ۵۳۰۲ باب اللتوکل والصبر ۱۴۰۹)
’’ کہ جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کرو اور جب مدد چاہتا ہو تو اللہ سے مدد چاہو۔‘‘
بلکہ اس وسیلے میں رسول اللہﷺ نے کسی دوسرے کی کیا اپنی شرکت یا واسطے کے معمولی شبہ کو بھی برداشت نہیں فرمایا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک آدمی نے آپ کےسامنے یہ الفاظ کہے کہ:
’’ ماشاء اللہ وما شاء محمد‘‘ (سنن ابن ماجه للالباني ابواب الکفارات ج اباب النھی ان یقال ماشاءاللہ وماشاء محمدص۳۹۲ رقم الحدیث ۔۲۱۳۔)
’’ کہ جیسے اللہ چاہے اور جیسے محمدﷺ نے چاہا۔‘‘
اس آپﷺ نے فرمایا:
جعلت للہ نداً (الادب المفرد باب قول الرجل ماشاء اللہ و سنت ۸۰۴’ نیز فتح الباري ۱۱/ ۵۴۰ کتاب الایمان و النذور باب لا یقول ما شاء اللہ و شئت کے تحت اجعلتنی واللہ عدلا کے الفاظ ہیں۔)
’’ کہ تو نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا؟‘‘
پھر فرمایا:
لا تقولواماشاءالله وشاءمحمد بل قولواماشاءالله وحده(مشکوة للالباني ج ۳ کتاب الادب الاسامی ص ۱۳۴۹ رقم الحدیث ۴۷۴۹۔)
’’ کہ یہ مت کہو کہ جو اللہ چاہے اور محمد چاہے بلکہ یہ کہو کہ جو صرف اللہ تعالیٰ چاہے‘‘
اور پھر یہ اہم نکتہ بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے کہ وسیلے اور واسطے کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی دوری یا فاصلہ ہو۔ اللہ تعالیٰ یو یہ فرماتے ہیں کہ
﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴿١٦﴾... سورةق
’’ ہم تو بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ... ﴿١٨٦﴾... سورةالبقرة
’’جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو انہیں بتائیں کہ میں قریب ہوں۔ دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں جب بھی وہ دعا کرتےہیں۔‘‘
ان دو آیتوں کے بعد اس امر کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ انسان اللہ کی ذات تک رسائی یا اس سے کچھ مانگنے کے لئے کسی دوسرے واسطے یا وسیلے کا محتاج ہے۔
ہمارے بعض نادان بھائی یہ مثال دے کر عوام کو شبہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر مکان کی چھت پر جانا ہو تو شیڑھی لگانے کی ضرورت پڑتی ہے ’ تو اللہ کی ذات تک رسائی یا اس سے کچھ مانگنے کے لئے یا اللہ تک پہنچنے کےلئے کسی واسطے کی کیوں ضرورت نہیں؟
(۱)پہلی بات تو یہ کہ اللہ کی ذات کےلئے اس طرح کی مثالیں دینا ہی جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ:
﴿وَلِلَّـهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ... ﴿٦٠﴾... سورةالنحل
’’اللہ کی ذات کے لئے تو بڑی بلند مثالیں ہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ... ﴿١١﴾... سورةالشورىٰ
’’ اسی کی مثل کوئی نہیں‘‘
اس لئے سیڑھی کی مثال دینا ہی غلط ہے اور پھر ہم پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ جو ذات انسان کی شہ رگ سے قریب ہے وہ اپنے بندے کی اونچی اور آہستہ پکار سنتا ہے اور بندے اور رب کےدرمیان کوئی فاصلہ ہی نہیں ہے۔ تو پھر سیڑھی کہاں لگاؤ گے؟
کیا بندے اور شہ رگ کے درمیان سیڑھی لگائی جاسکتی ہے؟ اور پھر کیا دیناوی اسباب کا استعمال جائز ہے؟
(۲)وسیلے کی ایک اور ناجائز شکل جو مروج ہے وہ کسی قبر پر جاکر قبر والے کا واسطہ دے کردعا کرنا ہے۔ یہ بھی قرآن وسنت کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال سروردوعالمﷺ اور صحابہ کرامؓ کی ہے۔ صحابہ کرام نے مشکل سے مشکل دور اورنازک سے نازک تر حالات میں بھی کبھی یہ نہیں کیا تھا کہ آپ کے روضہ مبارک پر جاکر آپ سے مانگتے یا آپ کے وسیلے سے دعا کرتے۔
بلکہ اس کے برعکس یہ ثابت ہے کہ حضور اکرمﷺ کے انتقال کے بعد ایک موقع پر حضرت عمر فاروقؓ نے حضور کے چچا حضرت عباس ؓ سے دعا کرائی ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ زندہ آدمی سے دعا کرانا بہرحال جائز ہےاور اگر کوئی اسے وسیلہ سمجھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سے دعا کراتے وقت تو سل کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سےتو دعا کی درخواست کی مگر روضہ رسول ﷺ کے قریب بیٹھ کریہ ضرورت محسوس نہیں کر رہے کہ وہ اور دوسرے صحابہ حضورﷺ کے روضے پر جاکر آپﷺ سے حاجت روائی یا مشکل کشائی کی درخواست کرتے یا آپﷺ کا واسطہ دے کر وہاں کھڑے ہو کر دعاکرتے تو کیا حضرت عمرؓ اوراس وقت موجود تمام صحابہ کرامؓ کا عمل ہمارے لئے مثال نہیں ہے؟
یہاں ایک اور شبہ کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ جہلا کے ہاں یہ خیال بھی بہت مشہور ہے کہ اگر کسی بڑے افسر کے پاس کسی کام کے لئے جانا ہو تو پہلے کلرک یا کسی چھوٹے افسر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اس طرح اگر بادشاہ کے پاس کوئی حاجت لے کر جانا ہو تو پہلے کسی وزیر یا مشیر کا واسطہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو سب سے بڑا بادشاہ اور حاکم اعلیٰ ہے۔ اس کے پا س یوں ہی چلے جائیں؟
یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کےلئے غلط مثال دی گئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیاوی افسروں اور بادشاہوں تک رسائی کےلئے کچھ واسطے ڈھونڈنے پڑتے ہیں اور بعض اوقات ان واسطوں اور سفارشوں کے بغیر ان صاحبوں تک رسائی ممکن بھی نہیں ہوتی مگر یہ کیوں؟ عام طور پر اس کی دو وجوہ ہوتی ہیں۔
اول یہ کہ جو آدمی ان تک رسائی چاہ رہا ہوتا ہے وہ حاکم یا افسر اسے جانتا نہیں کہ یہ کون اور کیسا آدمی ہے۔ اس لئے درمیان میں کسی ایسے واسطے کی ضرورت ہوتی ہےجو اس آدمی کو جانتا ہو اور بادشاہ سلامت کو اس شخص کا تعارت کرواسکے تو گویا کہ بادشاہ یا وہ افسر اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ جو اسے ملنا چاہتا ہے یااس کے پاس آنا چاہتا ہے کوئی ایسا شخص درمیان میں ہو جو اس آدمی کے بارے میں بادشا ہ کو باخبر کرے۔
دوم یہ کہ اس بادشاہ یا اس افسر کو یہ علم نہیں ہوتا کہ یہ شخص جو مسئلہ یا ضرورت لےکر اس کے پاس آرہا ہے اس میں وہ سچا ہے یا جھوٹا اور ضرورت مند ہے یا غیر ضرورت مند۔ اب یہاں دنیاوی حکمران کو اس بات کی محتاجی ہوتی ہے کہ درمیان کےکچھ واسطے اسے صحیح صورت حال سے آگاہ کرسکیں اور وہ مختلف وسیلوں سے یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو شخص آرہا ہے وہ کس حد تک اپنے قول میں سچا ہے۔
اب ذراایمان داری سے غور فرمائیں کہ کیا اللہ تعالیٰ بھی ان باتوں کا محتاج ہے؟ معاذاللہ ہرگز نہیں۔ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اسے پہلے سے سب کچھ علم ہے ۔ وہ ہرگز ہرگز اس بات کا محتا ج نہیں کہ کسی سے مشورہ کرے پھر کسی سے ملنے یا نہ ملنے کا فیصلہ کرے۔ یا کسی کی ضرورت اور حاجت کے بارے میں اپنے کسی وزیر یا مشیر کے ذریعے سے تحقیق کروائے پھر اس کی ضرورت پوری کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر فرمائے۔ اس کی ذات ان باتوں سے بے پرواہ ہے اس لئے ذات باری تعالیٰ کے بارےمیں اس طرح کی مثالیں دینا سراسر جہالت ہے۔
(۳)اس سلسلے میں ہمارے ہاں ایک اور غلط تصور بھی رائج ہے اور وہ یہ کہ اللہ کی ذات بڑی عظیم اور اعلیٰ ہے جب کہ ہم بڑے عاجز اور گناہ گار ہیں۔ ہماری رسائی اس ذات تک کہاں ہو سکتی ہے۔ بڑی بڑی مقدس اور نیک ہستیاں ہی اس کے سامنے آسکتی ہیں اور وہ انہی کو سنتا ہے۔ گناہ گاروں اور سیاہ کاروں کی کہاں سنتا ہے۔ یہ تصور بھی اللہ تعالیٰ کی صفات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ اللہ تو کریم ہے وہ نیک وبد دونوں کی سنتا ہے۔ اس کے سامنے امیروغریب سارے برابر ہیں ۔ بلکہ بعض اوقات وہ گناہ گاروں کی جلدی سنتا ہے اور وہ اسے پکارتا ہے تو زیادہ خوش ہوتا ہے۔ وہ تو حیوانوں ’پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں کی بھی سنتا ہے۔ وہ کتنا ناکارہ مسلمان ہے جو ی سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نہیں سنے گا جب تک کہ وہ کسی واسطے کےذریعے اس تک اپنی درخواست نہیں پہنچائے گا۔
قرآن تو باربار گناہ گاروں کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ:
اللہ کے دربار میں حاضر ہو کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔اس کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ وہ تو سارے گناہ معاف کردیتا ہے بشرطیکہ کوئی سچے دل سے اس کے سامنے توبہ کرے۔
اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کوئی گناہ گار میرے دربار میں کسی وسیلے کے بغیر نہیں آسکتا۔
یہاں تک ہم نے ’’وسیلے‘‘ کےموضوع پر ضروری مسائل کاذکر کر دیا ہے اور بعض اہم پہلو تحریر کئے ہیں جن کے ذریعے اس مسئلے کی شرعی حیثیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اب ہم اس حدیث کا اختصار سے جائزہ لیتے ہیں جس کا ذکر سوال میں کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نیک بندوں یعنی اولیاء اللہ کی دشمنی کو حدیث میں اللہ کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا گیا۔ اسی طرح یہ بھی درسست ہے کہ نیک بندوں کے اعضاء جسمانی اللہ کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں۔ کوئی جتنا نیک ہوتا ہے اس کے اعضاء اتنے ہی اس کی مرضی کے تابع اور اس کے احکام کے پابند ہوتے ہیں اور جس طرح اللہ چاہتا ہے ایسے ہی وہ بولتا ہے جیسے اللہ کا حکم ہوتا ہے ویسے وہ چلتا ہے۔ غرض ساری حرکات و سکنات میں وہ ذات واحد کی قائم کردہ حدود کی پوری اور مکمل پابندی کرتا ہے تو یہ درست نہیں کہ اس بندے میں قوت الٰہی منتقل ہو جاتی ہے یا اسے ایسی قوت حاصل ہوجاتی ہے کہ وہ ایسے کام کرنے لگ جاتا ہے جو عام بندے نہیں کرسکتے اور نہ ہی مذکورہ حدیث میں ایسے الفاظ آئے ہیں۔
اس بارے میں درج ذیل باتوں پر غور کرنے سے مسئلے کی نوعیت اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔
(۱)ہر مسلمان کا یہ ایمان ہےکہ اللہ تعالیٰ کا جو قرب وسرور کائنات ﷺ کو حاصل ہوا’’ وہ کسی دوسرے کونہیں مل سکا۔ا س طرح اللہ عبادت اور تقوے و پاکیزگی اور مقام کی رفعت وبلندی میں ساری مخلوق الٰہی میں آپ کا کوئی ہم سر نہیں۔ آپ کے اعضاء مبارکہ سب سےزیادہ اللہ کی مرضی کے تابع تھے‘‘ اسی طرح آپ کی سماعت و بصارت بطور خاص اللہ کی نگرانی میں تھیں۔
﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾... سورةالنجم
’’وہ تو اپنی خواہش سے بولتے بھی نہ تھے۔‘‘
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ ﷺ کو کوئی ایسی قوت الٰہی حاصل ہوگئی تھی کہ آپ نے یہ فرمایا ہو کہ میرا وسیلہ پکڑو ’ یا میرے وسیلے سے دعا کرو یا میں کسی کو بخشوانے یا چھڑوانے کی گارنٹی دیتا ہوں۔ ہرگز کسی ایسی بات کاذکر قرآن و سنت میں نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کےبرعکس ہے۔ آپ تو یہ فرما رہے ہیں کہ :
مانگو تو اللہ سے مانگو۔ پکارو اور مدد طلب کرو تو اللہ سے طلب کرو۔
جب خود حضور یہ نہیں فرما رہے تو ہمیں کیا حق حاصل ہے کہ آپ کا وسیلہ ڈال کر اللہ کو پکاریں۔ ہمارے لئے اصل دلیل تو حضور اکرمﷺ کا ارشاد اور عمل ہےنہ کہ اپنا اندازہ یا قیاس۔
(ب)حدیث میں ہے کہ آپ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ الزہراؓ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہؓ سے بار بار یہ فرمایا کہ:
میرے ساتھ تعلق کی وجہ سے نیک اعمال ترک نہ کرنا’ یا میرے سہارے کی امید پر نہ رہنا بلکہ اپنی عملی زندگی کا خیال رکھنا’ اس کے بغیر نجات نہ ہوگی۔ میں وہاں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا اگر تمہارے اعمال درست نہ ہوئے تو۔
اب اس حدیث کے بعد رسول اللہﷺ یا کسی بزرگ ولی اللہ کے بارے میں کون سے قوت الٰہی کا عقیدہ رکھ کر وسیلہ بنائیں گے؟
(ج)قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل پارہ ۱۵ کی آیات ۱۹ سے لے کر ۹۵ تک کا مطالعہ کیجئے کہ:
جب کفار نے آپﷺ سے یہ کہا کہ آپ چشمے جاری کرکے دکھائیں۔ باغات آپ کی ملکیت میں ہوں۔ آسمان سے عذاب الٰہی ہم پر گرائیں۔آپ کے پاس خوبصورت محلات ہوں’ خود ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ کر وہاں سے کتاب لا کر دکھاؤ۔ اس طرح کی باتیں دکھاؤ تو پھر ایمان لائیں گے۔ا س کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا‘‘ میں تو ایک انسان رسول ہوں’’یعنی تم جن قوتوں کامطالبہ کررہے ہوں یہ تو اللہ تعالیٰ کےاختیار میں ہیں۔
اس لئے بھائی صاحب سوال یہ نہیں کہ کسی بڑے بزرگ انسان یا برگزیدہ نبی کےوسیلے سےمانگی ہوئی دعا کو ہم جائز کریں۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ قرآن و سنت میں اس کا ثبوت ہے یا نہیں۔ ورنہ انبیاء کرام کی شان اور اولیاء اللہ کےمقام کی بلندی اور قرب الٰہی کا انکار کوئی مسلمان کیسےکرسکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب