السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایس ایم سید پریسٹن سےلکھتے ہیں۔ کیا اللہ کے سوا کسی دوسرے بزرگ کیا ولی کےنام نذرونیاز دینا جائز ہے۔ تاکہ ان کا قرب حاصل ہو اور اپنی مشکلیں حل کرنا آسان ہوجائے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے پر ہم پہلے بھی صراط مستقیم میں مفصل جواب دے چکے ہیں۔ غیر اللہ کے نام کی نذر اسلام میں جائز نہیں اور یہ کام شرک ہے اورجن علماء نے نرم الفاظ استعمال کئے ہیں انہوں نے بھی اسے باطل اور حرام قرار دیا ہے اور قرآن کی آیت:
﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّـهِ...﴿١٧٣﴾... سورةالبقرة
میں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے۔(وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّـهِ) کا مطلب بھی کیا ہوسکتا ہے مگر جن لوگوں کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہوں اور ضدوتعصب کی وجہ سے اندھے ہوچکے ہیں ان پر نہ کوئی آیت اثر کرسکتی ہے اور نہ کسی حدیث کو وہ ماننے کے لئے تیار ہیں اس لئے ہر جگہ ان کا نذرونیاز کےنام پر کاروبار زوروں پر ہے۔ اس لئے واضح دلائل کے باوجود وہ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے چلے آرہے ہیں۔
ہمارے ہاں یعنی پاکستانی و ہندوستانی حلقوں میں جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں وہ اپنے آپ کو بڑے فخر سے حنفی کہتے ہیں لیکن جن بدعات و خرافات میں یہ لوگ مبتلا ہیں حنفی ائمہ و علماء نے ان کاموں کو غلط اور ناجائز قرار دیا ہے ۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ ہدایت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے آج کے اس جواب میں ہم حنفی علماء و ائمہ کے اقوال پر اکتفا کرتے ہیں شائد ان کی بات اثر کرجائے۔
(۱)فقہ حنفی کی معرکہ آراءکتاب فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ ‘‘ اکثر عوام میں جو یہ رواج ہےکہ وہ کسی نیک آدمی کی قبر پر جا کر نذر مانتے ہیں کہ اے فلاں بزرگ اگر میری حاجت پوری ہوگئی تو اتنا سونا یا کوئی چیز تمہاری قبر پر چڑھاؤں گا یہ نذر بالاجماع باطل ہے۔’’ (فتاویٰ عالمگیری)
(۲)درمختار میں ہے:‘‘ اور معلوم ہونا چاہے کہ اکثر عوام مردوں کےنام جو نذریں نیازیں دیتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں اولیاءکرام کاتقرب حاصل کرنے کے لئے مالی نذرانے پیش کرتے ہیں اور ان کی قبروں پر چراغ اور تیل جلاتے ہیں یہ سب چیزیں بالا جماع باطل اور حرام ہیں۔’’ (درمختار)
(۳)اس کےباطل اور حرام ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں:
ایک: یہ کہ قبروں کے چڑھاوے وغیرہ مخلوق کےنام کی نذریں ہیں اور مخلوق کےنام کی نذر جائز ہی نہیں اس لئے نذر بھی عبادت ہے اورعبادت کسی مخلوق کی جائز نہیں۔
دوسری: وجہ یہ کہ منذور لہ (جس کےنام کی نذر دی جاتی ہے) مردہ ہے اورمردہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔
تیسری: یہ کہ نذر دینے والا شخص مردوں کےمتعلق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ کے سوا کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں حالانکہ مردوں کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا صریحاً کفر ہے۔(فتاویٰ شامی)
(۴)شیخ قاسم شرح درر میں لکھتے ہیں:‘‘ وہ نذر جو عوام الناس مانتے ہیں جیسے کہ مشاہدہ ہےکہ کسی شخص کا کوئی آدمی گم ہوجائے یا بیمار ہو’ یا اس کو کوئی ضرورت و حاجت پیش ہو پس وہ کسی نیک آدمی کےمزار پر جائے اور غلاف کو سر پر اٹھائے اور کہے اے میرے آقا (فلاں بزرگ) اگر میرا گم شدہ واپس آجائے یا میرا مریض تندرست ہو جائے یا میری حاجت پوری ہوجائے تو آپ کو اتنا سونا اتنی چاندی یا اتنا کھانا یا اتنا پانی یا سبیل لگاؤں گا یا اتنی موم بتیاں قبر پر روشن کروں گا یا اتنا تیل چراغ میں ڈالوں گا۔ یہ تمام ائمہ کے اتفاق سے باطل ہے۔ (بحر الرائق شرح کنزالدقائق ج دوم ص ۲۹۸)
یہ عبارتیں جو ہم نے نقل کی ہیں یہ فقہ حنفی کی مشہور کتابوں کی ہیں۔ ہمارے بھائی جو نذرونیاز کا کاروبار کرتے ہیں وہ ان کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اکثر مسائل میں ان کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں بلکہ کچھ عرصہ پہلے اس گروہ کے ایک بزرگ نے تو ‘‘ فتاویٰ عالمگیری’’ کو اسلامی قانون کی بنیاد بنانے کی تجویز پاکستان میں پیش کی تھی۔
اس لئے انہیں ان عبارتوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہے کہ ان کے اپنے ائمہ اور علماء اس مسئلے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
بہرحال جو عوام بزرگوں کے حوالے سے کوئی نذر دیتے ہیں تو ان سے معلوم کرنا چاہئے کہ ان کا مقصد کیا ہے۔
اول: اگر وہ اس قبر یا مزار میں دفن بزرگ کا قرب اور خوشنودی حاصل کرناچاہتے ہیں اور اس کےنام کی نذرونیاز دیتے ہیں تو یہ واضح شرک ہے۔
دوم: اگر مقصد حاجت روائی اور مشکل کشائی ہے تو یہ بھی باطل اور حرام ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب