سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) شرک کی حقیقت ونوعیت کیا ہے؟

  • 13761
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5227

سوال

(03) شرک کی حقیقت ونوعیت کیا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کونڑی سے محمد دین صاحب لکھتے ہیں میرے دو مندرجہ ذیل سوالتا کے جوابات آئندہ کسی شمارے میں تفصیل سے دے کر ممنون فرمائیں

۱۔ شرک کیا ہے’ اس کی نوعیت کیا ہے؟

۲۔ شرک و بدعت کے مرتکب کس زمرے آتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں مخلوق میں سے کسی کو شریک کرنا شرک ہے چاہے کوئی مخلوق میں سے کسی کو اللہ کے برابر سمجھے یا مد مقابل یا وہ کام جو اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں وہ مخلوق کے لئے کرتا ہے تب بھی وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔

شرک وہ سنگین جرم ہے جو ساری عبادات و اعمال کو غارت کردیتا ہے اور اگر کوئی شخص توبہ کے بغیر مرجاتا ہے تو یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ ارشاد ربانی ہے:۔

﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ‌ أَن يُشْرَ‌كَ بِهِ وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١١٦﴾... سورةالنساء

’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کو نہیں بخشے گا جس نے اس کے ساتھ شرک کیا وہ بڑی دور کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔‘‘

اسی طرح قرآن حکیم میں اور بھی بہت سے مقامات پر شرک کے ظلم عظیم ہونے کا ذکر کیا گیا ہے اور مشرک کو ابدی جہنمی قرار دیا گیا ہے ۔ شرک کی نوعیت معلوم کرنے کے لئے درج زیل امور کا جاننا ضروری ہے:

(۱) سب سے پہلے اللہ ذات کی پہچان اور اس کی صفات کی معرفت اور توحید کا حقیقی مفہوم جاننا ضروری ہے ۔ کیونکہ شرک توحید کی ضد ہے اور توحید کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں وحدہ لاشریک ہے اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے پہلے جز کا یہی مطلب ہے مثلاً توحید باری تعالیٰ یہ ہے کہ:

ا۔ کائنات کی کوئی چیز بھی اللہ کی ذات کی مانند نہیں۔

ب۔ اللہ کوکوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی۔

ج ۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت روانہیں۔

د۔ وہ ذات نہ فنا ہوگی نہ ختم ہوگی۔

ھ۔ اس جہاں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے۔

و۔ وہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی اور نہ ہی اسے نیند آتی ہے۔

ز۔ موت اور زندگی کلی طور پر اس کے ہاتھ میں ہے۔

ح۔کائنات کہ ہر چیز اس کے ارادے کے مطابق چلتی ہے اور وہی نفع نقصان کا مالک ومختار ہے۔

یہ اور اس طرح کی متعدد دوسری صفات میں وہ واحد ویکتا ہے ۔ اب مثلاً

(۱) کوئی شخص مخلوق میں سے کسی کےبارے میں ( چاہے وہ کتنی ہی بلند ہستی کیوں نہ ہو) یہ کہتا ہوکہ اسے موت نہیں آتی یا وہ ہمیشہ زندہ ہےتو یہ شرک ہوجائے گا۔

یا یہ کہتا ہے کہ بتوں کی عبادت تو شرک ہے مگر اللہ کے نیک بندو ں کی عبادت جائز ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ اور شرک کاارتکاب کررہاہے۔

(۲)دوسری بات جس کا جاننا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ شرک کا معنی یہ نہیں کہ اللہ کا انکار کردیا جائے۔ انبیاء کو جھٹلایا دیا جائے تب ہی کوئی مشرک ہوتا ہے بلکہ اللہ کی ذات کو ماننے والے اور نبیوں کو ماننے والے بھی مشرک ہوسکتے ہیں۔

قرآن نے اسے واضح طور پر  بیان کیا ہے کہ اللہ پر ایمان کے باوجود لوگ مشرک ہیں اور ان کی اکثریت شرک میں مبتلا ہے ۔ا رشاد باری تعالیٰ ہے۔ ( وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ ) ( یوسف : ۱۰۶)

’’ یعنی لوگوں میں سے اکثر ایمان کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔‘‘

یہود و نصاریٰ کو جومشرک قرار دیا گیا وہ اس لئے نہیں کہ ملحد اورمنکرین وجود باری تعالیٰ تھے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ کی مخلوق میں سے بعض برگزیدہ ہستیوں کو اللہ کی صفات میں شریک کرلیا تھا اور انہیں بھی نفع و نقصان کا مالک قراردیا تھا حالانکہ وہ اللہ کو مانتے تھے اور ان میں بڑے بڑے بعض مذہبی پیشوا اور درویش موجود تھے جو ان کی مذہبی راہ نمائی کرتے تھے مگر اس کے باوجود مشرک ٹھہرائے گئے۔

(۳)تیسری بات جس کا علم ہونا ضروری ہے وہ یہ کہ مشرکین عرب یہ ہرگز نہیں کہتے تھے کہ وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے بلکہ مشرکین مکہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ہم تو انہیں اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیتے ہیں یا اس تک پہنچا دیتے ہیں اور یہ تصور اور عقیدہ ان کے ہاں پایا جاتا تھا کہ اللہ ہماری براہ راست نہیں سنتا ہم گنہگار ہیں اس لئے ہم ان تک اور یہ آگے اللہ تک ہماری التجائیں پہنچاتے ہیں۔

قرآن نے اس ماننے کو بھی عبادات قرار دیا ہے باوجود اس کے کہ وہ حقیقی عبادت اللہ ہی کہ کرتے تھے۔ غیر اللہ کو تو مجازی سمجھتے تھے ۔ قرآن نے اسے بھی عبادت قرار دیا ارشاد ہے:

﴿ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ ...﴿٣﴾... سورةالزمر

’’ یعنی جن لوگوں نے اللہ کے سوا کچھ حمایتی اور دوست بنا لئے ہیں وہ یہ کہتے ہیں ہم تو ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تا کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔‘‘

اس لئے اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھ کر کسی مخلوق کا واسطہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے بیچ میں لاتا ہے کہ اللہ اس کی سنتا نہیں  یا وہ بہت دور ہے درمیانی واسطے کے بغیر اس تک پہنچنا ممکن نہیں یا یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ اتنی بڑی ذات ہے کہ کوئی عام آدمی اس تک پہنچ نہیں سکتا تو یہ بھی شرک کے کاموں میں شمار ہوتا ہے۔ کیوں کہ قرآن نے واضح طور پر بیان کردیا کہ:

﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِ‌يبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْ‌شُدُونَ ﴿١٨٦﴾... سورة البقرة

’’کہ اے پیغمبر میرا بندہ جب آپ سے میرے بارے میں پوچھے تو اسے بتا دیں کہ میں قریب ہوں اور دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب بھی وہ دعا مانگتا ہے۔ انہیں چاہئے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ راہ راست پر آجائیں۔‘‘

دوسری آیت میں ہے:

﴿وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ ﴿١٦﴾... سورةق

’’ کہ ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘

اب اس کے بعد یہ خیال بالکل باطل ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت دور ہے کہ اس تک کسی واسطے کے بغیر پہنچنا ممکن نہیں۔

(۴)شرک کے ضمن میں چوتھی بات جس کا جاننا ضروری ہے کہ بعض مشرکانہ ذہن کے لوگ جو یہ بات پھیلاتے ہیں کہ کس کام کو شرک قرار دیا گیا وہ بتوں سے متعلق تھا کہ اگر بت کو اللہ کی ذات یا صفات میں شریک کیا جائے تب مشرک ہے اور اگر اللہ کے نیک اور متقی بندوں کو پکارا جائے ان کی نذر مانی جائے یا تعظیم کے طور پر سجدہ کیا جائے یا انہیں نفع و نقصان کا مالک سمجھا جائے تو یہ شرک نہیں کیونکہ یہ تو اللہ کے نیک بندے تھے بت تو نہیں تھے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا دھوکہ اور فریب ہے۔قرآن نے پوری طرح واضح کر دیا کہ وہ صرف بتوں کی نہیں نیک انسانوں کی بھی پرستش کرتے تھے۔ مشکل کے وقت انہیں پکارتے تھے۔

ارشاد ربانی ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ... ﴿١٩٤﴾... سورةالاعراف

’’ یعنی اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے انسان ہیں۔‘‘

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ:

﴿وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ...١١٦﴾... سورة المائدة

 ’’اور جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ بن مریم کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود مانو۔‘‘

‘‘اب ظاہر ہے حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے بت نہیں تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ بتوں کےعلاوہ انسانوں اور اللہ کے نیک بندوں کی بھی عبادت کی گئی اور یہ بھی من دون اللہ اور غیر اللہ میں شامل ہیں۔

(۵)اس بارے میں ایک پانچویں قابل ذکر بات یہ ہے کہ کیا اللہ نے اپنے نیک بندوں انبیاء اولیاء اور شہداء کو کچھ اختیارات دیئے ہیں یا کچھ معاملات ان کے سپرد کردیئے ہیں کہ جس طرح وہ چاہیں تصرف کریں اور لوگوں کے درمیان فیصلے کریں؟ کیونکہ یہ شبہ بھی پھیلاتا جاتا ہے کہ ہم تو انہی کو پکارتے ہیں مشکل کشا سمجھتے ہیں یا سفارشی مانتے ہیں جنہیں خود اللہ نے یہ اختیار دیا ہے اور وہ اللہ کے دیئے ہوئے اختیار ہی سے یہ کام کرتے ہیں۔

یہ بھی بالکل غلط اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں نہ کسی کو نائب بنایا اور نہ ہی اپنے بعض اختیارات کسی کو منتقل کئے کہ وہ اس کی طرف سے ان اختیارات کو استعمال کریں۔ اگر سرورعالم ﷺ یہ فرمارہے ہیں کہ مجھے بھی تصرف کا اختیار نہیں پھر کسی دوسرے کی کیامجال ہے۔

ارشاد ربانی ہے۔

﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّ‌ا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْ‌تُ مِنَ الْخَيْرِ‌ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ...١٨٨﴾.... سورة الاعراف

 ’’اور آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنے نفس کے لئے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر جو کچھ چاہے اللہ اور اگر میں غیب جانتا تو بہت فائدہ حاصل کرتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔‘‘

جب کسی کے پاس ایسی کوئی سند ہی نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کوئی اختیار سونپ دیا ہے یا اسے کائنات میں تصرف کرنے کی اجازت دی ہے یا اسے ایسے مقام پرفائز کیا ہے کہ وہ لوگوں کی حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرے تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ وہ کون ہے جسے یہ اختیار سونپا گیا ہے۔ محض خود اپنے دعوے سے تو ہر ایک بہروپیہ ولی قطب اور ابدال ہونے کا دعوی کرے گا مگر اصل دلیل قرآن وسنت سے چاہئے۔ اگر یہ نہیں تو ساری باتیں اور دعوے باطل ہوں گے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص33

محدث فتویٰ

تبصرے