السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ ثابت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح کیاتھا؟
اہل سنت اور شیعہ دونوں فریقوں کی کتابوں سے تحقیق کرکے ثبوت پیش کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جی ہاں! یہ نکاح ثابت ہے اور اس کے مستند حوالے فریقین کی کتابوں سے پیش خدمت ہیں:
۱: ثعلبہ بن ابی مالک (القرظی) رحمہ اللہ و رضی عنہ سے روایت ہے کہ
’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں۔ ایک نئی چادر بچ گ ئی تو بعض حضرات نے جو پ کے پاس ہی تھے کہا: یا امیر المومنین! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دے دیجئے، جو آپ کے گھر میں ہیں۔ ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سے تھی لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط رضی اللہ عنہا اس کی زیادہ مستحق ہیں۔‘‘ الخ (صحیح بخاری: ۲۸۸۱، ترجمہ محمد داود راز، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ ۲۱۲/۴)
صحیح بخاری کے اس حوالے سے ثابت ہوا کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔
۲: نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ’’ووضعت جنازة ام کلثوم بنت علی امرأة عمر بن الخطاب و ابن لها یقال له زید‘‘
اور عمر بن خطاب کی بیوی ام کلثوم بنت علی کا جنازہ رکھا گیا اور اس کے بیٹے کا جنازہ رکھا گیا جسے زید (بن عمر بن الخطاب) کہتے تھے۔ (سنن النسائی ۷۱/۴۔ ۷۲ ح۱۹۸۰، و سندہ صحیح و صححہ ابن الجارود بروایۃ: ۵۴۵ و سحنہ النووی فیالمجموع ۲۲۴/۵، و قال ابن حجر فی التلخیص الجبیر ۱۴۶/۲ ح۸۰۷: ’’واسنادہ صحیح‘‘)
نیز دیکھئے میری کتاب: نور العینین (ص۱۱۳)
۳: مشہور ثقہ تابعی امام الشعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ
’’عن ابن عمر انه صلی علی اخیه و امه ام کلثوم بنت علی………‘‘
ابن عمر (رضی اللہ عنہض نے اپنے بھائی (زیدبن عمر) اور اس کی والدہ ام کلثوم بنت علی (رحمہما اللہ) کا جنازہ پڑھا۔ (مسند علی بن الجعد: ۵۹۳ و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: ۵۷۴)
امام شعبی سے دوسری روایت میں آی ہے کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید (یعنی اپنے بھائی) کا جنازہ پڑھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۱۵/۳ ح۱۱۵۷، و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: ۱۱۶۹۰)
۴: عبداللہ البہی رحمہ اللہ (تابعی صدوق) سے روایت ہے کہ ’’شهدت ابن عمر صلی علی ام کلثوم و زید بن عمر بن الخطاب……‘‘ میں نے دیکھا کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے ام کلثوم اور زید بن عمر بن الخطاب کا جنازہ پڑھا…… (طبقات ابن سعد ۴۶۴/۸ و سندہ حسن)
اس جنازے کے بارے میں عمار بن ابی عمار (ثقہ و صدوق) نے کہا کہ میں بھی وہاں حاضر تھا۔ (طبقات بن سعد ۴۶۵/۸ و سندہ صحیح)
۵:درج بالا چار صحیح روایات کی تائید میں ائمہ اہل بیت اور علمائے کرام کے کچھ اقوال اور مزید حوالے پیش خدمت ہیں:
امام علی بن الحسین: زین العابدین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ’’ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنه خطب الی علی رضی الله عنه ام کلثوم فقال: انکحنیها، فقال علی: انی ارصدها لابن اخی عبدالله بن جعفر فقال عمر: انکحنیها فوالله ما من الناس احد یرصد من امرها ما ارصده، فانکحه علی فاتی عمر الماجرین فقال: الا تهنونی؟ فقالوا: بمن یا امیر المومنین؟ فقال: بام کلثوم بنت علی و ابنة فاطمة بنت رسول الله صلی الله علیه وسلم……‘‘
بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا، کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ تو علی (رضی اللہ عنہض نے فرمایا: میں اسے اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) کے لئے تیار کر رہا ہوں۔ پھر عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا: اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں کیونکہ اللہ کی قسم! جتنی مجھے اس کی طلب ہے لوگوں میں سے کسی کو اتنی طلب نہیں ہے۔ (یا مجھ سے زیادہ اس کے لائق دوسرا کوئی نہیں ہے۔)
پھر علی (رضی اللہ عنہ) نے اسے (ام کلثوم) ان (عمر) کے نکاح میں دے دیا۔ پھر عمر (رضی اللہ عنہ) مہاجرین کے پاس آئے تو کہا: کیا تم مجھے مبارکباد نہیں دیتے؟
انھوں نے پوچھا: اے امیر المومنین! کس چیز کی مبارکباد؟
تو انھوں نے فرمایا: فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم بنت علی (رضی اللہ عنہماض کے ساتھ شادی کی مبارکباد…… (المستدرک للحاکم ۱۴۲/۳ ح۴۶۸۴ و سندہ حسن، وقال الحاکم: ’’صحیح الاسناد‘‘ وقال الذہبی: ’’منقطع‘‘ السیرۃ لابن اسحاق ص۲۷۵۔۲۷۶ و سندہ صحیح)
علی بن الحسین بن ابی طالب رحمہ اللہ تک سند حسن لذاتہ ہے، جو کہ ائمہ اہل بیت میں سے تھے اور ان کی یہ روایت سابقہ احادیث صحیحہ کی تائید میں ہے۔
۶: امام محمد بن علی بن الحسین الباقر ابوجعفر رحمہ اللہ نے فرمایا:
عمر نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ مانگا تو علی نے فرمایا: میں نے اپنی بیٹیاں بنو جعفر (جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد) کے لئے روک رکھی ہیں تو انھوں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: آپ میرے ساتھ ان (ام کلثوم) کا نکاح کر دیں کیونکہ اللہ کی قسم! روئے زمین پر میرے علاوہ دوسرا کوئی بھی ان کی حسن معاشرت کا طلبگار نہیں ہے۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قد انکحتکھا‘‘ میں نے اس کا نکاح آپ کے ساتھ کر دیا۔ الخ (سنن سعید بن منصور ۱۴۶/۱ ح۵۲۰ و سندہ صحیح، طبقات ابن سعد ۴۶۳/۸)
۷: عاصم بن عمر بن قتادہ المدنی (ثقہ عالم بالغازی) رحمہ اللہ نے فرمایا: عمر بن خطاب نے علی بن ابی طالب سے ان کی لڑکی ام کلثوم کا رشتہ مانگا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی تھیں ’’فزوجھا ایاہ‘‘ پھر انھوں (علی رضی اللہ عنہ) نے اس (ام کلثوم رضی اللہ عنہا) کا نکاح ان (عمر رضی اللہ عنہ) سے کر دیا۔ (السیرۃ لابن اسحاق ص۲۷۵ و سندہ حسن)
۸: محمد بن اسحاق بن یسار امام المغازی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’وتزوج ام کلثوم ابنة علی من فاطمة ابنة رسول الله صلی الله علیه وسلم عمر بن الخطاب فولدت له زید بن عمرو امراة معہ فمات عمر عنها۔‘‘
علی اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن الخطاب سے ہوا تو ان کا بیٹا زید بن عمر (بن الخطاب) اور ایک لڑکی پیدا ہوئے پھر عمر (رضی اللہ عنہ) فوت ہوگئے اور وہ آپ کے نکاح میں تھیں۔ (السیرۃ لابن اسحاق ص۲۷۵)
۹: عطاء الخراسانی رحمہ اللہ نے کہا:
عمر (رضی اللہ عنہ) نے ام کلثوم بنت علی کو چالیس ہزار کا مہر دیا تھا۔ (طبقات ابن سعد ۴۶۳/۸۔ ۴۶۶)
اس روایت کی سند عطاء الخراسانی تک حسن ہے۔
۱۰: امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ (تابعی) نے فرمایا:
’’واما ام کلثوم بنت علی فتزوجها عمر بن الخطاب فولدت له زید بن عمر……‘‘ اور ام کلثوم بنت علی سے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہما) نے شادی کی تو ان کا بیٹا زید بن عمر پیدا ہوا…… (تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۴۲/۲۱ و سند حسن)
ان کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں اور بھی بہت سے حوالے ہیں جن سے ہمارے عنوان کا ثبوت ملتا ہے اور متعدد کبار علماء نے اس کی صراحت کر رکھی ہے کہ ام کلثوم بنت علی کا نکاح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا۔ مثلاً دیکھئے
۱: التاریخ الاوسط للبخاری (۶۷۲/۱ ح۳۷۹، ص۶۷۴ ح۳۸۰، ۳۸۱)
۲: کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم (۵۶۸/۳)
۳: طبقات ابن سعد (۲۶۵/۳)
۴: کتاب الثقات لابن حبان (۲۱۶/۲)
اہل سنت کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں بلکہ اجماع ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح کیا تھا۔
اب شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی کتابوں سے دس حوالے پیش خدمت ہیں:
۱: ابو جعفر الکلینی نے کہا:
’’حمید بن زیاد عن ابن سماعة عن محمد بن زیاد عن عبدالله بن سنان و معاویة بن عمار عن ابی عبدالله علیه السلام قال: ……… ان علیا لما توفی عمر اتی ام کلثوم فانطق بها الی بیته‘‘
ابو عبداللہ (جعفر الصادق) علیہ السلام سے روایت ہے کہ…… جب عمر فوت ہئے تو علی آئے اور ام کلثوم کو اپنے گھر لے گئے۔ (الفروع من الکافی ۱۱۵/۶)
اس روایت کی سند شیعہ کے اصول سے صحیح ہے۔ اس کے تمام راویوں مثلاً حمید بن زیاد، حسن بن محمد بن سماعہ اور محمد بن زیاد عرف ابن ابی عمیر کے حالات مامقانی (شیعہ) کی کتاب: تنقیح المقال میں موجود ہیں۔
۲: ابو جعفر الکلینی نے کہا:
’’علی بن ابراهیم عن ابیه عن ابن ابی عمیر عن هشام بن سالم وحماد عن زرارة عن ابی عبدالله علیه السلام ی تزویج ام کلثوم فقال: ان ذلک فرج غصبناه‘‘
ابوعبداللہ علیہ السلام (جعفر صادق رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انھوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی۔ (الفروع من الکافی ۳۴۶/۵)
اس روایت کی سند بھی شیعہ اصول سے صحیح ہے۔ اس کے راویوں علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی وغیرہ کے حالات تنقیح المقال میں مع توثیق موجود ہیں۔
اہل سنت کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ اس سے بری ہیں۔
۳: ابو عبداللہ جعفر الصادق رحمہ سے روایت ہے کہ جب عمر فوت ہوگئے تو علی نے آکر کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور انھیں اپنے گھر لے گئے۔ (الفروع من الکافی ۱۱۵/۶۔ ۱۱۶)
۴: ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی نے ’’الحسین بن سعید عن النضر بن سوید عن ھشام بن سالم عن سلیمان بن خالد‘‘ کی سند کے ساتھ نقل کیا کہ ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر الصادق رحمہ اللہ) نے فرمایا: جب عمر فوت ہوئے تو علی علیہ السلام نے آکر ام کلثوم کا ہاتھ پکڑا پھر انھیں اپنے گھر لے گئے۔ (الاستبصار فیما اختلف من الاخبار ۴۷۲/۳ ح۱۲۵۸)
اس روایت کی سند بھی شیعہ اسماء الرجال کی رو سے صحیح ہے۔
۵: ان کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کے نکاح کا ذکر موجود ہے: تہذیب الاحکام ۱۶۱/۸، ۲۶۲/۹
۶: الشافی للسید المرتضی علم الھدی (ص۱۱۶)
۷: مناقب آل ابی طالب لابن شھر آشوب (۱۶۲/۳)
۸: کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ للاربلی (ص۱۰)
۹: مجالس المومنین للزر اللہ الشوستری (ص۷۶)
۱۰: حدیقۃ الشیعہ للا ردبلی (ص۲۷۷)
نیز دیکھئے علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی عظمی کتاب: الشیعہ و اہل البیت (ص۱۰۵۔۱۱۰)
خلاصہ یہ کہ اہل سنت اور شیعہ (روافض) دونوں کی مستند کتابوں اور مستند حوالوں سے یہ ثابت ہے ک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا تھا اور ان سے زید بن عمر بن الخطاب رحمہ اللہ بھی پیدا ہوئے تھے۔
پخر میں ایک عبرت انگیز واقعہ پیش خدمت ہے:
وزیر معزالدولہ احمد بن بویہ شیعہ (یعنی رافضی) تھا۔ (دیکھئے سیر اعلام النبلاء ۱۹۰/۱۶)
اس کی موت کے وقت ایک عالم اس کے پاس گئے تو صحابہ کرام کے فضائل بیان کئے اور فرمایا: بے شک علی علیہ السلام نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن خطاب سے کیا تھا۔
اس (احمد بن بویہ) نے اس بات کو بہت عظیم جانا اور کہا: مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ پھر اس نے (توبہ کرکے) اپنا اکثر مال صدقہ کر دیا، اپنے غلاموں کو پزاد کر دیا، بہت سے مظالم کی تالفی کر دی اور رونے لگا حتی کہ اس پر غشی طاری ہوگئی۔ (دیکھئے المنتظم لابن الجوزی ۱۸۳/۱۴ ت۲۶۵۳)
اہل تشیع سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اس وزیر کی طرح توبہ کرلیں ورنہ یاد رکھیں کہ رب العالمین کے سامنے اپنے تمام اقوال و افعال کا جواب دہ ہونا پڑے گا اور اس دن اللہ کے عذاب سے چھڑانے والا کوئی نہیں ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور تمام صحابۂ کرام کے ساتھ علیہ السلام کے بجائے رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنہا لکھنا چاہئے اور یہی راجح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب