سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) مروجہ صلوٰۃ وسلام بدعت ہے

  • 13741
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2463

سوال

(43) مروجہ صلوٰۃ وسلام بدعت ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بریلوی حضرات جو صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں، کیا یہ احادیث سے ثابت ہے؟ اور اس کا پڑھنا صحیح ہے؟(سائل: محمد اسحاق فاروقی راولپنڈی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علامہ عزیز زبیدی رحمہ اللہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’زمانۂ رسالت میں تین شہروں میں جو اذانیں ہوتی تھیں۔ ان میں مؤذن یہ تھے۔ مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ، مکہ مکرمہ میں ابو محذورہ اور قبا میں حضرت سعد قرطی رضی اللہ عنہ۔ اور یہ تینوں حضرات آنحضرتﷺ کے مقرر کردہ صحابی تھے، مگر ان میں سے کسی سے بھی بریلوی دوستوں کے درودشریف کا کہیں بھی اتا پتا نہیں ملتا۔ حالانکہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرتﷺ کے سچے محب تھے۔

بریلوی دوستوں کا درود:

بریلوی دوستوں نے جو درود شریف ایجاد کیا ہے نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے۔ اگر یہ درود خود رسول اللہﷺ نے  سکھایا ہے تو بسروچشم ورنہ خدا حافظ۔

درود گاتے ہیں پڑھتے نہیں:

ویسے بھی یہ درست درود پڑھتے بھی نہیں ہیں بلکہ درود گاتے ہیں اور انہوں نے گانے کے لیے درود کی ایک ایسی ترکیب وضع کی ہے جو گانے کی دھنوں کے لیے موزوں ہو سکتی ہے۔ ہم نبوی درود پڑھنے کو ثواب سمجھتے ہیں لیکن دوسرے کو نہیں۔

یہ درود نہیں فرقہ واریت کا اعلان ہے:

بریلوی دوستوں کا یہ درود، درود نبوی کے تحت نہیں آتا بلکہ اس سے ان کی غرض بریلوی ذہنیت اور عقیدہ کا اعلان اور اشتہار ہے۔ جو ہمارے نزدیک اور بھی شرعی مستقبل کے لیے فال بد ہے۔

راقم عرض کرت ہے کہ زمانہ مشھودلھا بالخیر یعنی آنحضرتﷺ کے عہد زرین سے لے کر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم مہدیین، عہد معاویہ رضی اللہ عنہ، تابعین، تبع تابعین اور پھر زمانہ ائمہ مجتہدین میں اس بریلوی صلوٰۃ سلام کو نہ صرف اذان سے پہلے اور بعد میں پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ہے بلکہ کسی صحابی یا تابعی اور کسی امام سے اس صلوٰۃ وسلام کی ترکیب بھی مذکورہ منقول نہیں، حالانکہ وہ علم وعمل اور محبت رسول میں ہم سے بہت آگے تھے۔ آنحضرتﷺ کے ایک اشارہ ابرو پر جانیں قربان کر دیتے تھے۔ رضی اللہ عنہم وارضاھم اجمعین۔

اور ظاہر ہے کہ ہر وہ کام جس کا ثبوت زمانہ مشہور لھا بالخیر میں نہ ملے جب کہ اس کی ضرورت بھی ہو اور پھر مانع بھی موجود نہ ہو اس کے بدعت اور غیر شرعی ہونے میں شک ہی کیا رہ جاتا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:

عن عائشة رضی اللہ عنھا قالت قال النبیﷺ «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ» (باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فھو مردود ص۳۷۱ ج۱)

’’آنحضرتﷺ نے فرمایا: جو شخص ہمارے دین میں ایسی چیز ایجاد کرے جو دین میں سے نہ ہو تو وہ قابل قبول نہیں۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ)) (صحیح بخاری: ص۱۰۹۳ج۲، صحیح مسلم: ص۷۷ج۲)

اور سنن ابی داؤد مع عون المعبود میں من صنع أمرا علی غیر أمرنا فھو رد کے الفاظ ہیں، یعنی جس نے ایسا عمل اور کام کیا جو ہمارا معمول نہیں یا جس پر ہماری طرف سے کوئی سند نہیں وہ مردود ہے۔

امام مالکؒ فرماتے ہیں:

من البتدع فی الاسلام بدعة ویراھا حسنة فقد زعم أن محمدا صلی اللہ علیه وسلم خان الرسالة لأن اللہ یقول اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینُکُمْ۔۔۔۔ الایة فمالکم یکن یومئذ دینا لا یکون الیوم دینا۔ کل عبادة لم یتعبدھا اصحاب رسول اللہ ﷺ فلا تعبدوھا فإن الاول لم یدع الاخر مقالا فاتقواللہ یا معشر المسلمین وخذو بطریق من کان قبلکم۔ (الاعتصام للشاطبی ص۲۷ ج۱ وص۱۵۰ ج۲)

’’کہ جو شخص اسلام میں بدعت ایجاد کرتا اور اس کو ثواب جانتا ہے، وہ گویا رسول اللہﷺ کو خائن سمجھتا ہے کہ انہوں نے پوری بات نہیں بتائی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو دین پورا کر دیا ہے لہٰذا جو کام زمانہ رسالت اور عہد صحابہ میں دین میں شامل نہ ہو وہ آج بھی دین نہین کہلا سکتا، اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو کام صحابہ نے نہیں کیا وہ عبادت نہیں ہو سکتا کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پچھلوں کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کو یہ پورا کریں، پس اے لوگو! اللہ سے ڈرو صحابہ کے طریقے کو اختیار کرو۔‘‘

خلاصۂ کلام یہ کہ اذان سے پہلے یا بعد میں پڑھا جانے والا مروجہ صلوٰۃ وسلام چونکہ رسول اللہﷺ خلفائے راشدین، صحابہ کرامؓ اور آنحضرتﷺ کے مؤذین سے ہرگز ثابت نہیں، لہٰذا یہ بدعت ہے، جیسا کہ اوپر کی صحیح احادیث اور تصریحات مذکورہ سے واضح ہے۔ اور ہاں اذان کے بعد دعائے وسیلہ کے ساتھ درود ابراہیمی پڑھنا سنت ہے۔

مروجہ صلوٰۃ کی دلیل اور اس کا جواب:

حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان فجر سے پہلے یہ دعا پڑھتے تھے:

((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَحْمَدُکَ وَاسْتَعِیْنُکَ عَلیٰ قُرَیْشٍ اَنْ یُّقِعْمُوا دِیْنَکَ ثُم یؤذن۔)) (ابو داؤد باب الاذان فوق المنارة، ج۱ص)

’’اے اللہ! میں تیری تعریف کرتا ہوں اور قریش پر تجھ سے مدد مانگتا ہوں تا کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں، پھر اذان پڑھتے۔‘‘

اس روایت سے اذان سے قبل مروجہ صلوٰۃ کا جواز اخذ کرنا بدووجہ صحیح نہیں۔

اول۔۔۔: اس لیےکہ اس روایت کی سند میں احمد بن محمد بن ایوب راوی ہے جو نہ تو محدثین میں شامل اور نہ کوئی ثقہ راوی ہے بلکہ کذاب ہے۔ یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں: لیس من اصحاب الحدیث وانما کان وراقا اور ابو احمد حاکم کہتے ہیں: لیس بالقوی عندھم۔ (تھذیب التھذیب ج۱، ص۱۷۱)

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: ھو کذاب۔ (میزان الاعتدال ج۱ ص۱۳۳) ایک دوسرا راوی محمد بن اسحاق ہے۔ جن کے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:

امام المغازی صدوق یدلس ورمی بالتشیع والقدر (تقریب التھذیب ص۲۹۰) اور عن سے روایت کرتا ہے، اصول حدیث کے مطابق مدلس راوی کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے تاوقتیکہ سماع کی صراحت نہ ہو۔

اگر یہ کہا جائے کہ بعض نے احمد بن محمد ثقہ بھی کہا ہے تو جواب یہ ہے کہ یہ جرح مفسر ہے اور مطلق توثیق پر جرح مفسر مقدم ہوتی ہے۔ لہٰذا ان جرحوں کی وجہ سے اس روایت سے مروجہ صلوٰۃ کا استدلال درست نہیں۔

ثانی۔۔۔۔: اس لیے کہ اس میں اذان سے قبل درود کا سرے سے تذکرہ تک نہیں نہ مسنون درود ابراہیمی کا اور بریلوی صلوٰۃ وسلام کا۔ پس بریلوی دوستوں کا اس ضعیف روایت سے یہ استدلال ہرگز درست نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص273

محدث فتویٰ

تبصرے