سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57)سنت اور بدعت کے بیان پر فائدہ مند گفتگو

  • 13740
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1290

سوال

(57)سنت اور بدعت کے بیان پر فائدہ مند گفتگو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بدعت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بدعت کی تعریف سے قبل، مناسب ہے کہ سنت کی بھی تعریف کر دی جائے کیونکہ سنت کا تعلق افعال کے باب سے ہے۔ اور بدعت کا باب متروک ہے اور کسی چیز کا بجا لانا، کسی چیز کے ترک کرنے پر مقدم ہے، بلکہ سنن کی تعریف سے خودبخود بدعت کی تعریف بھی نمایاں ہوجاتی ہے۔

اب سنت کیا ٹھہری؟ یعنی سنت کیا ہے؟

لغت عرب میں سنت اس (نشان زدہ) راستے کو کہتے ہیں جس پر چلا جا سکے اور اس کی جمع سنن ہے۔

اور شرعاً سنت اس عمل کو کہتے ہیں جسے حضور اکرمﷺ نے اللہ کے حکم سے اپنی امت کے لیے مشروع قرار دیا ہوتا کہ وہ آداب وفضائل کے عمدہ ترین اعمال کو اپنا کر خیر اور نیکی کے راستوں کے ذریعے تکمیل وسعادت حاصل کر سکے۔

اگر آنحضرت نے اس عمل کو اپنا کر خیر اور نیکی کے راستوں کے ذریعے تکمیل وسعادت حاصل کر سکے۔

اگر آنحضرتﷺ نے اس عمل کے التزام اور قیام کا حکم دیا ہو تو وہ ’’سنت واجبہ‘‘ کہلائے گی، جسے ترک کرنا مسلمان کے لیے مفید نہ ہوگا۔ اگر آپﷺ نے قیام والتزام کا حکم نہ دیا ہو تو وہ ’’سنت، مستحب‘‘ کہلائے گی، جس کے کرنے والے کو ثواب اور چھوڑنے والے کو عذاب نہیں ہوگا۔

قارئین کرام! جس طرح آنحضرتﷺ نے اپنے فرمان سے کئی سنتیں شروع فرمائیں اور اس طرح اپنے فعل اور تقریر سے بھی مشروع فرمائی ہیں۔

جب حضرت نبی مکرمﷺ نے کوئی عمل کیا ہو اور اس پر پابندی کی ہو تو وہ امت کے لیے سنت بن جائے گا۔ ہان، اگر کوئی دلیل قائم ہو جائے کہ وہ آپ کی خصوصیات سے ہے تو پھر نہیں جیسے پے در پے روزے رکھنا اور رات کو بھی افطار نہ کرنا، اسے موالاۃ الصیام کہتے ہیں۔

اگر آپ نے کوئی چیز سنی یا صحابہ کے درمیان دیکھی اور مسلسل رونما ہو رہی ہو اور آپ نے منع نہ کیا ہو تو وہ آپ کی تقریری سنت کہلائے گی۔ اور اگر آپ کا کوئی فعل یا رؤیت یا سماعت مسلسل نہ ہو تو وہ سنت نہیں کیونکہ لفظ سنت، تکرار سے مشتق ہے وہ سن السکین سے ہو جب چھری کو پتھر کی سل پر مسلسل رگڑا جائے اور وہ تیز ہو جائے تو وہ اجسام پر نافذ ہو کر اسے کاٹ دیتی ہے۔

اس کام کی مثال جو آپ نے ایک مرتبہ کیا ہو، پھر دوبارہ اسے کبھی نہ کیا ہو اور وہ سنت نہ بن سکا۔ آپ کا بغیر سفر مرض، مطر اور خوف کے مدینہ میں ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کا جمع (امام شوکانی کی تحقیق کے مطابق صوری) کرنا ہے کیونکہ آپ کا یہ عمل تمام مسلمانوں کے ہاں سنت متبعہ نہیں ہے۔

اور اس عمل یا کام کی مثال جس پر آپ نے خاموشی اختیار کی ہو اور اسے ایک مرتبہ برقرار رکھا ہو اور وہ عمل ایسے سنت نہ بن سکا جس پر مسلمانوں نے عمل کیا ہو وہ یہ ہے کہ ایک عورت نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے رسول اللہﷺ کو سفر (جنگ) صحیح سلامت لوٹایا تو وہ اظہارفرحت کے لیے آپ کی قبر کے اوپر دف بجائے گی۔ (ترمذی، ابو داؤد) تو اس عورت کا ایسا کرنا اور آنحضرتﷺ کا اسے نہ روکنا اور برقرار رکھنا اور ایسے فعل کا پھر کبھی نہ رونما ہونا اس فعل کو سنت نہ بنا سکا کیونکہ اس میں تکرار موجود نہیں۔

اور اس عمل کی مثال جسے آپ نے اپنی زندگی میں کئی مرتبہ کیا ہو اور وہ ایسی سنت بن گیا کہ تمام مسلمان بلا اختلاف اس پر عمل کرتے ہیں۔ آپﷺ کا فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کے سامنے رخ کر کے بیٹھنا ہے، سو آپ نے اس طرح بیٹھنے کا حکم تو نہیں دیا، لیکن آپ کا سینکڑوں مرتبہ ایسے کرنا ان سب کے لییے سنت بن گیا جو لوگوں کو جماعت کرواتے ہیں۔

اور اس کام کی مثال جو آپﷺ کو کئی مرتبہ دیکھا اور سنا لیکن برقرار رکھا تو وہ سنت بن گیا۔ جنازہ کے آگے اور پیچھے چلنا ہے کیونکہ آپﷺ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کئی مرتبہ جنازہ کے آگے پیچھے چلتے دیکھا تو آپ نے ان کا چلنا برقرار رکھااور یہ دیکھ کر خاموشی اختیار کی اور منع بھی نہ کیا تو جنازہ کے پیچھے یا آگے چلنا ایسی سنت بن گیا جس میں کوئی اختلاف نہیں۔

اے میرے مسلمان برادر! اسے ہمیشہ یاد رکھ کیونکہ اس جیسے اعمال کو سنت کہا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ذکر کرتا چلوں کہ خلفائے راشدین میں سے کسی کا بھی جاری کیا ہوا طریقہ سنت کھلائے گا جیسے حضرت ابوبکر، عمر فاروق، عثمان ذوالنورین، علی مرتضی رضی اللہ عنہم کے فرامین) کیونکہ آنحضرتﷺ کا ان کی متعلق ارشاد ہے:

((عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ بَعْدِي عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ)) (ترمذی، ابو داؤد وقال صحیح)

’’تم پر میری اور میرے بعد آنے والے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے، اسے مضبوطی سے تھام لو۔‘‘

ثواب اور بدعت کی پہچان حاصل کریں:

بدعت، سنت کے برعکس ہے اور وہ ابتداع الشیء سے مشتق ہے، جب اسے ایسے طور پر ایجاد کیا جائے جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور وہ شرع شریف کے عرف میں ایسی عبادت، ایسا عمل وعقیدہ ہے جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں مشروع نہیں کیا اور نہ ہی اپنے رسول کی زبان سے اس کے اجراء کا حکم دیا۔

آسان لفظوں میں اس کی تعریف یہ ہے کہ:

’’ہر قسم کا اعتقاد یا قول یا عمل جو تقریب الٰہی کی خاطر انجام دیا جائے، لیکن اس کا وجود عہد نبوت یا عہد صحابہ میں نہ ملتا ہو تو وہ بدعت ہے، خواہ اس پر قدر وسیت کا خول چڑھایا جائے اور اس پر تقریب اور اطاعت کی علامات لگا دی جائیں۔‘‘

اور لیجئے یہ مثالیں ہیں ہر قسم کے اعتقاد اور قول اور عمل کی جس سے ہم تعلیم اور تحذیر کی خاطر بدعت کی حقیقت بیان کریں گے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے اسے صراط مستقیم کی راہ دکھاتا ہے۔

اعتقادی بدعت کی مثال یہ ہے کہ بہت سے (اجڈ اور عقل سے پیدل) مسلمان اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کائنات میں بزرگوں کی خفیہ حکومت ہوتی ہے، جہاں سے منصب ولایت پر فائز کرنے اور معزول کرنے یا کچھ دینے اور روکنے اور کسی کو نفع دینے یا تکلیف پہنچانے کے احکامات صادر ہوتے ہیں اور ان روحانی بزرگوں کو ’’قطب وابدال‘‘ کہتے ہیں اور ہم نے کتنوں کو سنا ہے، جو ان سے استغاسہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ یَا رِجَالَ الدِّیْوَانِ اے روحانی حکومت کے کار پردازو اور یا اھل التصریف من حروصیف اے آزاد اور غلاموں کے متصرف الامور صاحبان۔

اور اس بات کا اعتقاد رکھنا کہ اولیائے کرام کی روحیں اپنی قبروں پر زیارت کے لیے آنے والوں کی سفارش اور حاجت روائی کرتی ہیں اس اعتقاد کے پیش نظر وہ اپنے مریضوں کو طلب شفاء کے لیے وہاں لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں: ما أعیتہ الأمور فعلیہ بأصحاب القبور۔ ’’جس کسی کو مشکلات گھیر لیں وہ قبروں والے بزرگوں کا دامن تھاملے‘‘ اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اولیاء غیب جانتے ہیں اور لوح محفوظ دیکھ لیتے ہیں اور وہ زندہ ہوں خواہ مردہ۔ لیکن مختلف قسم کے تصرفات کی طاقت ضرور رکھتے ہیں، اس لیے وہ خاص رسومات کی ادائیگی کے لیے ان کے عرس کا اہتمام کرتے ہیں اور ان کے نام پر قربانیاں دیتے ہیں، اور وہاں محافل سماع برپا کرتے ہیں۔ اولیاء کرام کے خفیہ دربار کا اعتقاد رکھنا اور ان سے استغاثہ کرنا شرک اکبر ہے۔

یہ اور اس قسم کی دیگر اعتقادی بدعات نہ تو عہد نبوت میں موجود تھیں، نہ عہد صحابہ میں اور نہ ہی ان کا ثبوت خیر القرون کے سنہری دور میں ملتا ہے، حالانکہ ان پہلی تینوں صدیوں کے مسلمانوں کی درستگی کی شہادت قول رسول اللہﷺ مقبول ملتی ہے۔ فرمان نبوی ہے:

((خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الذین یَلُوْنَھُم)) (متفق علیہ)

قولی بدعت کی مثال یہ ہے کہ اللہ سے کسی کی جاہ وحشمت اور حق کے حوالے سے دعا کی جائے اور یہ بات لوگوں میں عام ہے اور اس معاملے میں چھوٹے بڑوں کی اور بعد والے پہلوں کی اور جاہل اپنے عالموں کی تقلید کرتے ہیں اور اسے اتنا عظیم اور افضل وسیلہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی ہاں سے جتنا اس طرح کہنے سے ملے گا اتنا کسی اور سے نہیں۔

مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ اس (بدعی) وسیلہ کے انکار کرنے والے کو دین سے خارج اور اولیاء وصلحاء کا گستاخ کہا جاتا ہے، حالانکہ اس قولی بدعت، جسے انہوں نے وسیلہ کا نام دے رکھا ہے اس کا وجود نہ عہد رسالت میں تھا اور نہ عہد سلف الصالحین الکرام میں اور نہ ہی اس کے متعلق کتاب اللہ میں دلیل ہے نہ سنت رسول میں اور قرین صواب بات یہ ہے کہ اسے رواج دینے والے غالی باطنی زندیق ہیں جن کا مقصد فقط یہی تھا کہ مسلمانوں کو نفع دینے والے ایسے وسائل سے پھر دیا جائے جن سے واقعتاً ان کی مشکلات زائل اور ضروریات پوری ہوتی تھیں۔

جیسے نماز (جس کے متعلق قرآن میں اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ) صدقات، روزے، مسنون ذکر اذکار اور قولی بدعات میں سے ایک بدعت جو عموماً صوفیوں کی محافل ذکر میں پائی جاتی ہے وہ ہے گھنٹہ یا دو گھنٹے باآواز بلند ھو، ھو، اللہ ھو، اللہ ھو، کی رٹ لگاتے ہیں، حتی کہ ان پر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہےاور ان میں کوئی نامناسب کلمات (صریحاً مشرکانہ کلمات) کہتے ہیں اور بسا اوقات اس عالم بے ہوشی میں اپنے بھائی کو قتل بھی کر دیتے ہیں۔

اور قولی بدعات کے ضمن میں وہ شعری قصیدے بھی ہیں جو محفل قوالی داڑھی منڈے یا نو عمر بچوں سے طبلے کی تھاپ پر سنے جاتے ہیں وھلم جرا یعنی ایسی مزید سینکڑوں بدعات میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان کا وجود نہ عہد رسالت میں تھا اور نہ عہد صحابہ میں بلکہ یہ زندیقوں اور دشمنان اسلام کی کارستانی سے اہل اسلام میں گھس آئی ہیں تاکہ وہ امت مسلمہ کو نفع مند اعمال سے ہٹا کر نقصان دہ اعمال میں مگن رکھیں اور انہیں سعی جہد اور عمل پیہم سے ہٹا کر لہو ولعب اور فضولیات میں الجھا دیں۔ (اس تلخ حقیقت کے اعتراف سے کوئی چارہ نہیں کہ وہ ملعون اس میں کامیاب ہو چکے)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص270

محدث فتویٰ

تبصرے