السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ حدیث صحیح ہے: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ پسن فرماتا ہے کہ اپنی نعمت کے آثار اپنے بندے پر دیکھے‘‘
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سیدنا مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میری (ظاہری) حالت خراب تھی تو آپ نے فرمایا: کیا تمھارے پاس مال ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: کس قسم کا مال ہے؟ میں نے کہا: ہر قسم کا مال ہے، اونٹ، غلام، گھوڑے اور بھیڑ بکیریاں سب کچھ ہے تو آپ نے فرمایا:«اذا اتاک الله مالا فلیر علیک» جب اللہ نے تجھے مال دیا ہے تو اس کا اثر تجھ پر نظر آنا چاہیے۔ (مسند احمد ۴۷۳/۳ ح۱۵۸۸۸، وسندہ صحیح و صححہ ابن حبان ۵۴۱۶/۵۳۹۲ والحاکم ۱۸۱/۴ ح۷۳۶۴ دوافقہ الذہبی)
یہ روایت بلحاظِ سند و متن بالکل صحیح ہے۔ اسے ابوداود (ح۴۰۶۳) اور نسائی (۱۸۱/۸ ح۵۲۲۵، ۵۲۲۶) نے بھی ’’ابو اسحاق السبیعی عن ابی الاحوص بن مالک بن نضلۃ عن ابیہ‘‘ کی سند سے بیان کیا ہے۔ ابو اسحاق کی یہ روایت اختلاط سے پہلے کی ہے اور انھوں نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ والحمدللہ
سنن ابی دااود کے الفاظ درج ذیل ہیں:
«فاذا آتاک اللہ مالا فلیر اثر نعمة الله علیک و کرامته» پس جب اللہ نے تجھے مال دیا ہے تو اللہ کی نعمت اور سخاوت کا اثر تجھ پر نظر آنا چاہئے۔ (طبع دارالسلام ح۴۰۶۳)
سنن نسائی میں اسی مفہوم کی روایت ہے، امام ترمذی نے یہ روایت مختصراً بیان کرنے کے بعد فرمایا: ’’ھذا حدیث حسن صحیح‘‘ (البروالصلۃ باب ماجاء فی الاحسان والعفو ح۲۰۰۶)
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من انعم الله علیه نعمة فان الله یحب ان یری اثر نعمته علی خلقه» جسے اللہ اپنی نعمت عطا فرمائے تو اللہ پسند کرتا ہے کہ اس کی مخلوق پر اس کی نعمت کا اثر نظر آئے۔ (مسند احمد ۴۳۸/۴ ح۱۹۹۳۴، وسندہ صحیح)
خلاصہ یہ کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب