سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(209) طلع البدر علینا

  • 13730
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2951

سوال

(209) طلع البدر علینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض علماء نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو انصار کی معصوم بچیاں درج ذیل اشعار گا رہی تھیں:

اشرق البدر علینا              من ثنیات الوداع

وجب الشکر علینا             ما دعا لله داع

ایها المبعوث فینا           جنت بالامر المطاع

ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب            چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا

کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے                           شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا

ہے اطاعت فرض تیرے حکم کی                بھیجنے والا ہے تیرا کبریا

دیکھئے رحمت للعالمین (۱؍۹۳) اور الرحیق المختوم اردو (ص۲۴۰، ۲۴۱)

کیا یہ اشعار پڑھنے والا واقعہ صحیح سند سے ثابت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ واقعہ ان اشعار کے ساتھ ’’رحمت للعالمین‘‘ میں بغیر کسی حوالے کے مذکور ہے۔ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری نے اس واقعے کے صحیح ہونے پر کوئی ایک بھی ناقابلِ تردید دلیل ذکر نہیں کی۔ صاحب الرحیق المختوم نے یہ واقعہ ’’رحمت للعالمین‘‘ سے نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ بغیر سند کے التمہید لابن عبدالبر (۱۴؍۸۲) کتاب الثقات لابن حبان (۱؍۱۳۱) مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ (۱۸؍۳۷۷) اور الضعیفہ للالبانی (۴۸۸) وغیرہ میں مذکور ہے۔

حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں: ’’وقد روینا بسند منقطع فی الحلبیات قول النسوة لما قدم النبی صلی الله علیه وسلم: طلع البدر علینا من ثنیات الوداع، فقیل: کان ذلک عند قدومه فی الهجرة وقیل عند قدومه من غزوة تبوک‘‘ اور (السبکی الکبیر کی) الحلبیات (کتاب) میں منطقع سند سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو عورتوں نے ’’طلع البدر علینا من ثنیات الوداع‘‘ پڑھا، کہا جاتا ہے کہ یہ ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کا واقعہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ غزوہ تبوک سے آپ کی واپسی کے وقت کا واقعہ ہے۔ (فتح الباری ج۸ ص۱۲۹ تحت ح ۴۴۲۷)

جس منقطع روایت کی طرف حافظ ابن حجر نے اشارہ کیا ہے وہ حافظ بیہقی کی کتاب دلائل النبوۃ (۲؍۵۰۶، ۵۰۷) میں صحیح سند کے ساتھ ابن عائشہ (راوی) سے مروی ہے۔

تنبیہ: الخصائص الکبریٰ اللسیوطی (۱؍۱۹۰) میں یہ حوالہ ’’عن عائشۃ‘‘ چھپ گیا ہے جو کہ طباعت یا ناسخ کی غلطی ہے۔

بیہقی والی روایت میں ابن عائشہ سے مراد عبیداللہ بن محمد بن عائشہ ہیں جو ۲۲۸ھ میں فوت ہوئے۔ (تاریخ بغداد ۱۰؍۳۱۸ ت ۵۴۶۲ و تقریب التہذیب: ۴۳۳۴)

غالباً یہی روایت ہے جس کی طرف حافظ ابن حجر نے ’’بسند منقطع‘‘ کہہ کر اشارہ کیا ہے اور یہی روایت الریاض النضرہ (۱؍۴۸۰ ح ۳۹۳) میں عن ابن عائشہ ’’واراہ عن ابیہ‘‘ کے ساتھ مروی ہے۔ اور آخر میں لکھا ہوا ہے کہ ’’خرجہ الحلوانی علی شرط الشیخین‘‘ اسے الحلوانی نے بخاری و مسلم کی شرط پر روایت کیا ہے۔

تنبیہ: صاحب الریاض النضرہ کا مطلب یہ ہے کہ اسے حلوانی نے بخاری و مسلم کی شرط پر ابن عائشہ سے روایت کیا ہے۔

ابن عائشہ کے والد محمد بن حفص بن عمر بن موسیٰ مجہول الحال ہیں، ان کی توثیق سوائے ابن حبان کے کسی نے نہیں کی۔ دیکھئے تعجیل امنفعہ (ص۳۶۳)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بہت عرصہ بعد ابن عائشہ کے والد اور پھر خود ابن عائشہ پیدا ہوئے لہٰذا یہ سند سخت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

حافظ ابن القیم لکھتے ہیں: ’’وهو وهم ظاهر لان ثنیات الوداع وانما هی من ناحیة الشام، لا یراها والقادم من مکة الی المدینة، ولا یمربها الا اذا توجه الی الشام‘‘ اور یہ (روایت) ظاہر طور پر وہم ہے کیونکہ ثنیات الوداع (مدینے سے) شام کی طرف ہیں۔ مکہ سے مدینہ آنے والا انھیں نہیں دیکھتا۔ ان کے پاس سے صرف وہی گزرتا ہے جو شام جاتا ہے۔ (زادالمعاد ۳؍۵۵۱)

خلاصۃ التحقیق: یہ قصہ ثابت نہیں ہے لہٰذا مردود ہے۔

تنبیہ: موارد الظمآن (ح۲۰۱۵) کے ایک نسخے میں کسی مجہول کاتب نے ایک حسن روایت کے آخر میں

’’وقالت: اشرق البدر علینا        من ثنیات الوداع

وجب الشکر علینا                         مادعا للہ داع‘‘

کا اضافہ کردیا ہے ۔ لیکن یہ اضافہ اصل صحیح ابن حبان (مثلاً دیکھئے الاحسان: ۴۳۷۱ دوسرا نسخہ: ۴۳۸۶) میں موجود نہیں ہے اور مجہول کاتب کی وجہ سے مردود و موضوع ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص481

محدث فتویٰ

تبصرے