السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص رات کے وقت منیٰ میں آئے اور جگہ نہ پائے اور نصف رات منیٰ میں گزارنے کے بعد حرم میں چلا جائے، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کا حکم یہ ہے کہ اگرچہ یہ عمل جائز ہے لیکن اس طرح کرنا نہیں چاہیے کیونکہ حاجی کو ایام تشریق میں رات دن منیٰ میں رہنا چاہیے۔ اگر منیٰ میں جگہ نہ ملے تو آخری خیمہ کے ساتھ ڈیرہ ڈال لے، خواہ وہ جگہ منیٰ سے باہر ہو بشرطیکہ پوری طرح تلاش کرنے کے باوجود منیٰ میں جگہ نہ ملے۔ ہمارے زمانے کے بعض اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر انسان کو منیٰ میں جگہ نہ ملے، تو اس سے منیٰ میں رات بسر کرنے کا حکم ساقط ہو جاتا ہے اور اس کے لیے جائز ہے کہ وہ مکہ میں یا کسی بھی دوسری جگہ رات بسر کر لے۔ انہوں نے اسے اعضائے وضو میں سے کسی ایک عضو کے مفقود ہونے پر قیاس کیا ہے کہ جس طرح اس کا دھونا ساقط ہو جاتا ہے، اسی طرح منیٰ میں رات بسر کرنا ساقط ہو جاتا ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ یہ وہ عضو جس سے حکم طہارت متعلق ہے، وہ تو موجود ہی نہیں جب کہ منیٰ میں رات بسر کرنے کے حکم سے مقصود یہ ہے کہ سب لوگ امت واحدہ بن کر اجتماعیت کا مظاہرہ کریں، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ منیٰ میں جگہ نہ ملنے کی صورت میں وہ آخری خیمے کے پاس رات گزار لے تا کہ وہ حاجیوں کے ساتھ مل کر رہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جب مسجد بھر جائے تو لوگ مسجد کے ارد گرد نماز پڑھنا شروع کر دیں لیکن ضروری ہے کہ صفیں باہم ملی ہوں تا کہ نمازی ایک جماعت ہوں۔ یہ ہے منیٰ میں رات بسر کرنے کی نظیر جب کہ کٹا ہوا ہاتھ اس کی نظیر نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب