سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(207) کیا ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ دوزخی تھے؟

  • 13728
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1524

سوال

(207) کیا ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ دوزخی تھے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’قاتل عمار و سالبه فی النار‘‘ عمار (رضی اللہ عنہ) کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے السلسلۃ الصحیحۃ (۵؍۱۸۔ ۲۰ ح۲۰۰۸)

یہ بھی ثابت ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ نے شہید کیا تھا۔ دیکھئے مسند احمد (۴؍۷۶ ح ۶۶۹۸ وسندہ حسن)

کیا یہ صحیح ہے کہ ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ دوزخی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور ان کا سامان چھیننے والا آگ میں ہے، اس کی تخریج و تحقیق درج ذیل ہے:

(۱)لیث بن ابی سلیم عن مجاہد عن عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ۔۔۔ الخ (ثلاثۃ مجالس من الامالی لابی محمد المخلدی ۷۵؍۱۔ ۲، السلسلۃ الصحیحۃ ۵؍۱۸، الآحادوالمثانی لابن ابی عاصم ۲؍۱۰۲ ح۸۰۳)

یہ سند ضعیف ہے۔ لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے، بوصیری نے کہا: ’’ضعفہ الجمھور‘‘ جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (زوائد ابن ماجہ: ۲۰۸، ۲۳۰)

ابن الملقن نے کہا: ’’وھو ضعیف عند المجمہور‘‘ وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔؛ (خلاصۃ البدر المنیر: ۷۸، البدر المنیر ۲؍۱۰۴)

امام نسائی نے فرمایا: ’’ضعیف کوفی‘‘ (کتاب الضعفاء : ۵۱۱)

(۲)المحمر بن سلیمان التیمی عن ابیه عن مجاهد عن عبدالله بن عمرو رضی الله عنه ۔۔۔ الخ (المستدرک للحاکم ۳؍۳۸۷ ح۵۶۶۱ وقال الذہبی فی التلخیص: علی شرط البخاری ومسلم)

یہ سند سلیمان بن طرخان التیمی کے ’’عن‘‘ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سلیمان التیمی مدلس تھے، دیکھئے جامع التحصیل (ص۱۰۶) کتاب المدلسین لابی زرعۃ ابن العراقی (۲۴) اسماء من عرف بالتدلیس للسیوطی (۲۰) التبیین لاسماء المدلسین للحلبی (ص۲۹) قصیدۃ المقدسی وطبقات المدلسین للعسقلانی (۵۲؍۲) امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: ’’کان سلیمان التیمی یدلس‘‘ سلیمان التیمی تدلیس کرتے تھے۔ (تاریخ ابن معین، راویۃ الدوری: ۳۶۰۰)

امام ابن معین کی اس تصریح کے بعد سلیمان التیمی کو طبقۂ ثانیہ یا اولیٰ میں ذکر کرنا غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ وہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا اس روایت کو ’’صحیح علی شرط الشیخین‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔

(۳)’’ابوحفص وکلثوم عن ابی غادیة قال۔۔ فقیل قتلت عمار بن یاسر واخبر عمرو بن العاص فقال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیه وسلم یقول: ان قاتله وسالبه فی النار‘‘ الخ (طبقات ابن سعد۳؍۲۶۰۔ ۲۶۱ واللفظ لہ، مسند احمد ۴؍۱۹۸، الصحیحۃ۵؍۱۹)

اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا: ’’وھذا اسناد صحیح، رجالہ لقات رجال مسلم۔۔۔‘‘

عرض ہے کہ ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ’’قاتله وسالبه فی النار‘‘ والی روایت بھی صحیح ہے۔

ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’فقیل۔۔۔‘‘ الخ پس کہا گیا تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا ہے اور عمروبن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اس (عمار) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی ’’فقیل‘‘ کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔ راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ ’’فی النار‘‘ والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ ’’اسنادہ صحیح‘‘ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت دوراوی بیان کررہے ہیں: (۱)ابوحفص: مجہول (۲)کلثوم بن جبر:ثقہ

امام حمد بن سلمہ رحمہ اللہ نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انھوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کیے ہیں؟ ابوحفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من  وعن ایک ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔

خلاصۃ التحقیق: یہ روایت اپنی تینوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح کہنا غلط ہے۔

تنبیہ: ابوالغاویہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں شہید کرنا ان کی اجتہادی خطا ہے جس کی طرف حافظ ابن حجر العسقلانی نے اشارہ کیا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص477

محدث فتویٰ

تبصرے