سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(205) امام معمر اور ان کے بھتیجے کا قصہ

  • 13726
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1301

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض علماء نے لکھا ہے کہ ’’حافظ ابن حجر نے ذکر کیا ہے کہ امام معمر رحمہ اللہ کا بھتیجا رافضی تھا، امام معمر رحمہ اللہ اسے اپنی کتابیں پکڑا دیتے، اس نے ایک حدیث امام معمر کی کتاب میں داخل کردی (التہذیب ص۱۲ج۱) وہ روایت امام معمر نے امام عبدالرزاق سے بیان کی جسے انھوں نے بیان کیا۔ اس کی تفصیل التہذیب وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔‘‘ عرض ہے کہ کیا یہ قصہ بلحاظِ سند صحیح و ثابت ہے؟

تحقیق کرکے جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ قصہ حافظ ابن حجر العسقلانی (متوفی ۸۵۲ھ) نے بغیر کسی سند اور حوالے کے ابوحامد بن الشرقی سے نقل کیا ہے۔ (دیکھئے تہذیب التہذیب ۱؍۱۲ ترجمۃ احمد بن الازہر)

یہی قصہ نورالدین الہیثمی (مجمع الزوائد ۹؍۱۳۳) اور سیوطی (تدریب الراوی ۱؍۲۸۶) نے بغیر کسی حوالے کے، ابوالحجاج المزی (تہذیب الکمال ۱؍۱۰۶) اور ذہبی (سیر اعلام النبلاء ۹؍۵۷۵، ۵۷۶، ۱۲؍۳۶۷) نے بغیر سند متصل مکمل کے ابوحامد بن الشرقی سے نقل کیا ہے۔

یہی قصہ خطیب بغدادی نے محمد بن احمد بن یعقوب سے، اس نے محمد بن نعیم الضبی (الحاکم صاحب المستدرک و تاریخ نیسابور) سے، انھوں نے ابواحمد الحافظ سے، انھوں نے ابوحامد (بن) الشرقی سے روایت کیا ہے۔ (تاریخ بغداد ج۴ص۴۲ ت۱۶۴۷)

عین ممکن ہے کہ یہ قصہ تاریخ نیسابور للحاکم میں لکھا ہوا ہو۔ (واللہ اعلم)

مجھے محمد بن احمد بن یعقوب کی توثیق نہیں ملی ہے۔ واللہ اعلم

نچلی سند سے قطعِ نظر محدث ابوحامد بن الشرقی رحمہ اللہ ۲۴۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۳۲۵ھ میں فوت ہوئے۔ دیکھئے تاریخ الاسلام للذہبی (۲۴؍۱۶۶، ۱۶۵) امام معمر بن راشد رحمہ اللہ ۱۵۴ھ میں فوت ہوئے تھے۔

سوال یہ ہے کہ امام معمر کی وفات کے چھیاسی (۸۶) سال بعد پیدا ہونے والے ابوحامد بن الشرقی کو یہ قصہ کس نے سنایا تھا؟

معلوم ہوا کہ یہ قصہ منقطع ہونے کی وجہ سے باطل اور مردود ہے۔

اس قصے پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ذہبی لکھتے ہیں:

’’قلت: هذه حکایة منقطعة وما کان معمر شیخا مغفلا بروج هذا علیه، کان حافظا بصیرا بحدیث الزهری‘‘ میں کہتا ہوں: یہ منقطع (کٹی ہوئی) حکایت ہے۔ معمر غافل شیخ نہیں تھے کہ ان پر اس بات کی حقیقت خفیہ رہ جاتی۔ وہ توحدیثِ زہری کے حافظ اور صاحبِ بصیرت تھے۔ (سیراعلام النبلاء ۹؍۵۷۶)

حافظ ذہبی کے اس ناقدانہ بیان سے اس قصے کا باطل اور مردود ہونا مزید واضح ہوگیا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص474

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ