سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(204) ’’کلامی لا ینسخ کلام اللہ‘‘ والی روایت موضوع ہے

  • 13725
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1197

سوال

(204) ’’کلامی لا ینسخ کلام اللہ‘‘ والی روایت موضوع ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’کلامی لا ینسخ کلام الله، وکلام الله ینسخ کلامی، وکلام الله ینسخ بعضه بعضا‘‘ میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا، اللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اور اللہ کے کلام کا بعض اپنے بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح:۱۹۵)

کیا یہ روایت صحیح ہے؟ تحقیق کرکے جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشکوٰۃ میں یہ روایت بحوالہ سنن دارقطنی (۴؍۱۴۵ ح۴۲۳۳) مذکور ہے۔ اسے دارقطنی، ابن عدی (الکامل۲؍۶۰۲ دوسرا نسخہ ۲؍۴۴۳) اور ابن الجوزی (العلل المتناہیہ ۱؍۱۲۵ح۱۹۰) نے ’’جبرون بن واقد: حدثنا سفیان بن عینیۃ عن ابی الزبیر عن جابر‘‘ کی سند سے روایت کیا ہے۔ ابن عدی نے کہا: ’’منکر‘‘ یہ حدیث منکر ہے۔ (نیز دیکھئے ذخیرۃ الحفاظ: ۴۴۰۶)

حافظ ذہبی نے اس حدیث کے بارے میں کہا: ’’موضوع‘‘ (میزان الاعتدال۱؍۳۸۸)

حافظ ابن حجر نے اس فیصلے کو لسان المیزان میں برقرار رکھا ہے۔ (دیکھئے للسان ۲؍۹۴)

جبرون بن واقد کے بارے میں ذہبی نے کہا: ’’لیس بثقۃ‘‘ وہ ثقہ نہیں ہے۔ (دیوان الضعفاء والمتروکین: ۷۲۲، المغنی فی الضعفاء:۱۰۸۹)

اور کہا: ’’متهم فانه روی بقلة حیاء۔۔۔‘‘ یہ (وضعَِ حدیث کے ساتھ) متہم ہے کیونکہ اس نے (یہ روایت) بے حیائی سے بیان کی۔۔۔ (میزان الاعتدال ۱؍۳۸۷، ۳۸۸)

متھم سے مراد ’’متهم بالوضع‘‘ ہے۔ (الکشف الحثیث عمن ری بوضع الحدیث ص۱۲۲)

کسی ایک محدث نے بھی اس راوی کی توثیق نہیں کی ہے۔

خلاصۃ التحقیق: یہ روایت جبرون بن واقد کی وجہ سے موضوع ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص473

محدث فتویٰ

تبصرے