سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(195) ہر صدی کے آخر میں مجدد کا وجود!

  • 13716
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2790

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث (ہرصدی کے سرے میں مجدد آئیں گے) اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے متن اور رجال کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ماام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’حدثنا سلیمان بن داود المهری: حدثنا ابن وهب: اخبرنی سعید بن ابی ایوب عن شراحیل بن یزید المعافری عن ابی علقمة عن ابی هریره فیهما اعلم۔ عن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: ان الله یبعث لهذه الامة علی راس کل مائة سنة من یجدد لها دینها، قال ابوداود: رواه عبدالرحمن بن شریح الاسکندرانی، لم یجزبه شراحیل‘‘

رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی کے سرپر وہ انسان مبعوث فرمائے گا جواس (امت) کے دین کی تجدید کرے گا، یا کریں گے۔ (سنن ابی داود کتاب الملاحم باب ۱ح۴۲۹۱)

اس روایت کی سند حسن ہے۔ اسے حاکم نے بھی عبداللہ بن وہب کی سند سے روایت کیا ہے۔ (المستدرک ۴؍۵۲۲ ح۸۵۹۲)

اب اس سند کے راویوں کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:

(۱)سلیمان بن داود المہری: ثقۃ (تقریب التہذیب:۲۵۵۱)

(۲)عبداللہ بن وہب: ثقۃ حافظ عابد (التقریب:۳۲۹۴) وکان یدلس

(۳)سعید بن ابوایوب:ثقۃ ثبت (التقریب:۲۲۷۴)

(۴)شراحیل بن یزید: صدوق (التقریب:۲۷۶۳) من رجال صحیح مسلم

(۵)ابوعلقمہ مولیٰ بنی ہاشم: ثقۃ (التقریب:۸۲۶۲)

باقی سند بالکل صحیح ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (دیکھئے الصحیحۃ:۵۹۹)

اس روایت کے متن میں کئی چیزیں تحقیق طلب ہیں:

(۱)ہرصدی کے سر (علی راس کل ماۃ) سے کیا مراد ہے۔ صدی کے شروع والا حصہ یا صدی کے اختتام والا دور؟ راجح یہی ہے کہ صدی کے اختتام والا دور ہی مراد ہے۔ دیکھئے عون المعبود (۴؍۱۷۹)

(۲)صدی سے کیا مراد ہے؟ ہجرت والی صدی یا آپ کی وفات کے بعد والی صدی؟ مشہور یہی ہے کہ ہجرت والی صدی مراد ہے واللہ اعلم۔

(۳)تجدید کرنے والے سے کیا مراد ہے؟ مختلف فرقوں اور لوگوں کو اپنی اپنی پسندیدہ شخصیتوں کو تجدد کا تاج پہنا کر مجدد بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان لوگوں کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ فلاں شخص ضرور بالضرور مجدد تھا یا ہے؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد (سیدنا) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور دوسری صدی کے امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ ہیں، لیکن یہ سب دعوے بلادلیل ہیں لہٰذا اس مسئلے میں مکمل سکوت میں ہی بہتری ہے۔

تنبیہ: بہت سے اہل بدعت (جو اپنے آپ کو اہل سنت، اہل توحید اور علمائے حق وغیرہ سمجھتے ہیں) یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ فلاں شخص چودھویں صدی کا مجدد تھا اور فلاں شخص فلانی صدی کا مجدد تھا، یہ سب دعوے جھوٹے اور مردود ہیں۔ یاد رہے کہ تجدید کرنے والا شخص یا اشخاص کتاب و سنت و اجماع کے عالم و عامل اور سلف صالحین کے فہم کو مدنظر رکھنے والے ہی ہوسکتے ہیں۔

اللہ کے ہاں مجدد کون ہے؟ یہ کسی کو پتا نہیں لہٰذا خواہ مخواہ قیاس آرائیاں کرکے اپنی مرضی کی شخصیات کو مجددیت کا تاج پہنا دینا بے دلیل اور مردود ہے۔ ایک عام کلرک کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ فلاں ملک کا بادشاہ ہے، اس بے چارے کے ساتھ سراسر مذاق ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص456

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ