سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(192) چند روایات کی تخریج و تحقیق

  • 13713
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1988

سوال

(192) چند روایات کی تخریج و تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا عبدالسلام بستوی نے اسلامی خطبات ’’خطبہ نمبر۲۳۔؍ج۱ص۲۲۰‘‘ معراج النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے۔ اس کی تحقیق درکار ہے۔

اس حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ ’’پھر مجھ کو نور میں پیوست کردیا گیا اور سترہزار حجاب مجھ کو طے کرادئیے گئے کہ ان میں ایک حجاب دوسرے کے مشابہ نہ تھا، اور مجھ سے تمام انسانوں اور فرشتوں کی آہٹ منقطع ہوگئی، اس وقت مجھ کو وحشت ہوئی تو اس وقت پکارنے والے نے مجھ کو ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے لہجہ میں پکارا کہ ٹھہرجائیے، آپ کا رب صلوٰۃ میں مشغول ہے۔‘‘ اور اس میں یہ بھی ہے کہ ’’میں نے عرض کیا مجھ کو ان دو باتوں پر تعجب ہوا ایک تو یہ کہ ابوبکررضی اللہ عنہ مجھ سے آگے بڑھ آئے اور دوسرا یہ کہ میرا رب صلوٰۃ سے بے نیاز ہے پھر ارشاد ہوا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھو ’’هوالذی یصلی علیکم‘‘ تو میری صلوٰۃ سے مراد رحمت ہے آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے اور ابوبکر کی آواز کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے ایک فرشتہ ابوبکر کی آواز اور صورت کا پیدا کیا کہ آپ کو ان ہی کے لہجہ میں پکارے تاکہ آپ کی وحشت دور ہو۔ اور آپ کو ایسی ہیبت لاحق نہ ہو، جو آپ کے فہم مقصود سے مانع ہو۔ مواہب نے ابن غالب کے حوالہ سے ان روایات کو شفاء الصدور میں نقل کیا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت احمد بن محمد القسطلانی (متوفی۹۲۳ھ) کی کتاب ’’المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ‘‘ (ج۲ص۳۸۲، ۳۸۳) میں مذکور ہے قسطلانی نے اسے ابوالحسن بن غالب سے نقل کیا ہے، ابوالحسن بن غالب نے اسے ابوالربیع بن سبع السبتی کی کتاب ’’شفاء الصدور‘‘ سے نقل کیا ہے۔

’’شفاء الصدور‘‘ کے بارے میں حاجی خلیفہ چلپی (متوفی۱۰۶۷ھ) نے کسی صاحب ’’مشارع الاشواق‘‘ سے نقل کیا ہے کہ ’’(واودع) اهادیثه عریة عن الاسناد‘‘ اور اس نے (اپنی کتاب میں) حدیثیں درج کی ہیں جو سندوں سے عاری ہیں۔ (کشف الظنون ج۲ص۱۰۵۰)

یعنی یہ بے سند روایتوں والی کتاب ہے لہٰذا یہ روایت بھی بے سند ہونے کی وجہ سے مردودوبے اصل ہے۔

تنبیہ(۱): المواھب اللدنیہ میں بہت سی موضوع، بے اصل اور ضعیف روایات موجود ہیں مثلاً اسی کتاب کے صفحہ ۳۷۸ (ج۲واللفط لہ) پر سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے بحوالہ دلائل النبوۃ للبیہقی (ج۲ص۳۹۳، ۳۹۴) مروی ہے: ’’ثم صعدت الی السماء السابعة فاذا ابراهیم الخلیل ساند ظهره الی البیت المعمور کا حسن الرجال  و معه نفر من قومه۔۔‘‘ الخ

اس روایت کی سند کا ایک راوی ابوہارون عمارہ بن جوین العبدی ہے (دلائل النبوۃ ۲؍۳۹۰) عمارہ بن جوین کے بارے میں امام حماد بن زید نے فرمایا: کان ابوہارون العبدی کذابا۔۔۔ الخ (الجرح و التعدیل ۲؍۳۶۴وسندہ صحیح)

امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: ’’ابوهارون العبدی غیرثقة یکذب‘‘ (سوالات ابن الجنید:۱) یعنی یہ راوی ضعیف، متروک اور جھوٹا تھا لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔

تنبیہ(۲): عبدالسلام بستوی (متوفی۱۳۹۴ھ) کی کتاب ’’اسلامی خطبات‘‘ میں بہت سی ضعیف، مردود، منکر اور موضوع روایات موجود ہیں، مثلاً بستوی صاحب لکھتے ہیں:

’’طوبٰی للمخلصین اولئک مصابیح الهدی وتنجلی عنهم کل فتنة ظلماء (بیھقی) مبارک اور خوش خبری ہو، اخلاص والوں کے لیے جو ہدایت کے چراغ ہیں، ان ہی کے ذریعہ تمام سیاہ فتنے دور ہوجاتے ہیں۔ (اسلامی خطبات ج۱ص۱۵)

یہ روایت ’’الترغیب والتراھیب‘‘ میں بحوالہ بیہقی (شعب الایمان:۶۸۶۱) مذکور ہے۔ (ج۱ص۵۴ح۵)

شیخ البانی رحمہ اللہ (متوفی۱۴۲۰ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’موضوع‘‘ یہ روایت موضوع ہے۔ (ضعیف الترغیب والترھیب ج۱ص۱۹، والسلسلۃ الضعیفۃ ج۵ ص۲۵۲ ح۲۲۲۵)

اس حدیث کے راوی عبیدہ بن حسان کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’کان ممن یروی الموضوعات عن الثقات‘‘ وہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا۔ (کتاب المجروحین ج۲ص۱۸۹)

ابوحاتم الرازی نے کہا: ’’منکر الحدیث‘‘ (الجرح والتعدیل۶؍۹۲)

اس موضوع روایت کی سند پر مزید بحث کے لیے السلسلۃ الضعیفۃ دیکھیں۔

تنبیہ(۳): اس قسم کی غیرمستند کتابیں جن میں موضوع و بے اصل روایات بغیر سند کے لکھی ہوتی ہیں ان سے عوام الناس کو بچنا چاہیے، ان کے مطالعے سے بغیر تحقیق کلی اجتناب کرنا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص445

محدث فتویٰ

تبصرے