سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(535) حج یا عمرہ کرنے والا کوچ سے پہلے آخری وقت بیت اللہ بیت اللہ میں گزارے

  • 1371
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1089

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے صبح طواف و داع کیا، پھر سو گیا اور اس نے عصر کے بعد سفر کا ارادہ کیا، تو کیا اس پر کچھ لازم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

عمرے اور حج کی صورت میں دوبارہ طواف و داع کرنا اس کے لیے لازم ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

«لَايَنْفِرَّ أَحَدٌ حَتَّی يَکُوْنَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبِيْتِ» (صحيح مسلم، الحج، باب وجوب طواف الوداع و سقوطه عن الحائض،ح:۱۳۲۷)

’’کوئی شخص کوچ نہ کرے حتیٰ کہ وہ آخری وقت بیت اللہ میں گزار لے۔‘‘

آپ نے یہ بات حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی، اورطواف و داع کے وجوب کی ابتدا اسی وقت سے ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے پہلے عمرہ ادا فرمایا تھا مگر یہ ثابت نہیں کہ واپسی کے وقت آپ نے طواف و داع بھی فرمایا ہو کیونکہ طواف و داع تو حجۃ الوداع کے موقع پر واجب ہوا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی فرمایا ہے:

«اِصْنَعْ فِی عُمْرَ تِکَ مَا أَنْتَ صَانِعٌ فِی حَجِّکَ» (صحيح البخاري، الحج، باب غسل الخلوق ثلاث مرات، ح: ۱۵۳۶، و صحيح مسلم، الحج، باب ما يباح للمحرم بحج أو عمرة، ح: ۲۷۹۸، ۱۱۸۰، ۶)

’’اپنے عمرے میں بھی تم اس طرح کرو جس طرح تم اپنے حج میں کرتے ہو۔‘‘ یہ حکم عام ہے لیکن اس سے وقوف، نیز منیٰ میں رات بسر کرنا اور رمی مستثنیٰ ہیں کیونکہ یہ احکام بالاتفاق حج کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر احکام عام ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمرہ کو حج اصغر کے نام سے بھی موسوم فرمایا ہے جیسا کہ حضرت عمر و بن حزم رضی اللہ عنہ  کی اس طویل اور مشہور حدیث میں ہے، (سنن الدار قطني: ۲۸۵/۲)

جسے علماء نے قبولیت سے نوازا ہے، اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے لیکن علماء کے قبولیت سے نوازنے کی وجہ سے یہ حدیث صحیح کے قائم مقام ہے، نیز اس لیے بھی کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ...﴿١٩٦﴾... سورة البقرة

’’اور حج اور عمرے کو اللہ (کی خوشنودی) کے لیے پورا کرو۔‘‘

لہٰذا طواف و داع کا تعلق اگر اتمام حج سے ہے، تواس کی بنیادپر اس کا تعلق اتمام عمرہ سے بھی ہوگیا اور پھر اس لیے بھی کہ عمرہ کرنے والا یہ شخص مسجد الحرام میں طواف کے ساتھ داخل ہوا تھا، لہٰذا اسے یہاں سے جاتے وقت بھی طواف کرنا چاہیے۔ بہر حال حج کی طرح عمرے میں بھی طواف وداع واجب ہے اور ایک اور حدیث میں ہے:

« اذاحج الرجلَ أَوِ اعْتَمَر فلايخرجَ حتی يکونْ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ» (سنن أبي داؤد، المناسک، باب فی الوداع، ح:۲۰۰۲، وجامع الترمذی، الحج، باب ما جاء من حج أو اعتمر فليکن آخر عهده بالبيت، ح:۹۴۶)

’’جو شخص اس گھر کا حج یا عمرہ کرے، اسے آخری وقت بیت اللہ میں گزارنا چاہیے۔‘‘

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ یہ حجاج بن ارطاۃ کی روایت ہے۔ اگر یہ روایت ضعیف نہ ہوتی، تو اس مسئلے میں یہ نص قطعی ہوتی لیکن ضعیف ہونے کی وجہ سے یہ روایت ناقابل استدلال ہے، البتہ وہ اصول جو ہم نے ابھی ابھی بیان کیے ہیں، وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ عمرے میں بھی طواف و داع واجب ہے اور احتیاط بھی اسی میں ہے کیونکہ عمرے میں جب آپ طواف و داع کریں گے، تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ آپ نے غلطی کی ہے لیکن اگر آپ طواف و داع نہیں کریں گے، تو جس کے نزدیک طواف و داع واجب ہے، وہ ضرور یہ کہے گا کہ آپ نے غلطی کی ہے، طواف و داع کرنے والا ہر حال میں صحیح ہے، جب کہ طواف نہ کرنے والا بعض اہل علم کے بقول خطا کار ہے۔ ‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ454

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ