سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(186) یا ساریۃ الجبل والی روایت کی تحقیق

  • 13707
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3062

سوال

(186) یا ساریۃ الجبل والی روایت کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یا ساریۃ الجبل والی روایت صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو مفہوم واضح کریں اور اگر ضعیف ہے تو وجہ ضعف بیان کردیں۔ جزاکم اللہ خیرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سلسلے میں راقم الحروف کا ایک تفصیلی مضمون ’’ہفت روزہ الاعتصام لاہور‘‘ (ج۴۳ شمارہ ۴۵، ۸نومبر ۱۹۹۱ء) میں شائع ہوا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ یا ساریۃ الجبل والا قصہ بلحاظ سند صحیح ثابت نہیں ہے۔ اس کی سندوں کی بحث مختصراً درج ذیل ہے:

(۱)ابن عجلان عن نافع عن ابن عمر۔ الخ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۶؍۳۷۰)

اس کی سند ابن عجلان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

محمد بن عجلان مدلس ہیں۔ (طبقات المدلسین بتحقیقی ۹۸؍۳ ص۶۰) اور عن سے روایت کررہے ہیں۔ اصولِ حدیث میں یہ مقر ہے کہ غیرصحیحین میں مدلس کا عنعنہ صحت حدیث کے لیے قادح ہے۔ یعنی مدلس راوی کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ (دیکھئے مقدمہ ابن الصلاح ص۹۹)

(۲) ایاس بن معاویہ بن قرۃ کی مرسل روایت (دلائل النبوۃ للبیہقی ۶؍۳۷۰)

مرسل روایت جمہور محققین کے نزدیک مردود ہوتی ہے۔ (دیکھئے الفیۃ العراقی: ۱۲۳ ص۲۸)

(۳)ایوب بن خوط عن عبدالرحمان السراج عن نافی، الخ [الفوائد لابی بکر بن خلاد (۱؍۲۱۵؍۲ قلمی) بحوالہ السلسلۃ الصحیحۃ (۳؍۱۰۱ ح۱۱۱۰)] اس کا راوی ایوب بن خوط متروک ہے۔ [التقریب: ۶۱۲]

(۴)فرات بن السائب عن میمون بن مہران عن ابن عمر، الخ (اسد الغابہ:۲؍۲۴۴) فرات بن السائب متروک و سخت مجروح ہے۔ [دیکھئے میزان الاعتدال ۳؍۳۴۱ وکتب المجروحین]

(۵)الواقدی عن شیوخہ (البدایہ والنہایہ ۷؍۱۳۵، الاصابۃ۲؍۳)

واقدی مشہور کذاب اور متروک راوی ہے۔ (دیکھئے تہذیب التہذیب ۹؍۳۲۳۔ ۳۲۶)

(۶)سیف بن عمر عن شیوخہ (البدایہ والنہایہ ۷؍۱۳۴)

سیف مشہور متروک الحدیث اور زندیق ہے۔ (تہذیب التہذیب۴؍۲۵۹، ۲۶۰)

(۷)ہشام بن محمد بن مخلد بن مطر عن ابی توبۃ عن محمد بن مھاجر عن ابی بلج علی بن عبداللہ الخ (السنۃ للالکائی۷؍۱۳۰، ۱۳۱)

اس میں ہشام اور ابوبلج کے حالات نامعلوم ہیں یعنی دونوں مجہول ہیں۔

(۸)لالکائی عن مالک عن نافع عن ابن عمر [البدایہ والنہایہ ۷؍۱۳۵، و کرامات اللالکائی:۷۳ دوسرا نسخہ:۶۷]

اس کے روی عمروبن الازہر کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا: کذاب (الضعفاء والمتروکون:۳۹۵) ابن حبان نے اسے حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا۔ دیکھئے المجروحین (۲؍۷۸) لہٰذا یہ سند موضوع ہے۔ خود حافظ ابن کثیر نے کہا: ’’وفی صحته من حدیث مالک نظر‘‘ اور اس کی صحت میں نظر ہے۔ (البدایہ۷؍۱۳۵)

اس قصے کی دیگر سندیں بھی مردود ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ یہ ایک دوسرے کی تقویت کرتی ہیں غلط ہے۔

اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف و ناقابل اعتماد ہے۔ لہٰذا اسے کسی متاخر امام یا عالم کا صحیح قرار دینا اصول حدیث کی رو سے غلط ہے۔ جو لوگ اسے صحیح سمجھتے ہیں انھیں چاہیے کہ اصول حدیث کی روشنی میں اس واقعہ کا صحیح ہونا ثابت کریں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص433

محدث فتویٰ

تبصرے