السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کیا مسجد کی تعمیر پر اپنا سارا مال خرچ کرنے والا متولی مسجد کے مال سے اپنی ضرورت کے لیے مال لے سکتا ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! پہلی بات تو یہ ہے نبی کریم ﷺنے ایک تہائی مال سے زیادہ مال صدقہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔تاکہ یہ نہ ہو کہ انسان صدقہ کرنے کے بعد خود لوگوں سے مانگتا پھرے۔سیدنا سعد بن ابی وقاص نے جب اپنے پورے مال کی وصیت کی خواہش کا اظہار کیا تو نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا: " أَوْصِ بِالثُّلُثِ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ " "ایک تہائی کی وصیت کرو،اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔"(مسلم:1628) اور اگر کسی متولی نے یہ کر لیا ہے اور پھر وہ واقعی ضرورت مند بھی اور اس کے پاس کوئی کاروبار یا آمدن کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے۔تو اسے چاہئے کہ وہ مسجد کے کسی کام مثلا صفائی وغیرہ کی کوئی ڈیوٹی لے لے اور اپنی مرضی سے کچھ لینے کی بجائے نمازیوں کی ایک کمیٹی بنا دے اور پھر وہ کمیٹی جو تنخواہ اس کی مقرر کرے وہ اس سے لے لیا کرے۔تاکہ کسی قسم کے شک وشبہے کا کوئی مسئلہ نہ رہے۔بغیر کسی ڈیوٹی کے مسجد سے لینا شاید درست نہیں ہے۔کیونکہ مسجد کوئی دکان نہیں ہے کہ پہلے مسجد بنادی اور پھر اس سے کمائی کرنا شروع کردی ۔مسجد تو اللہ کا گھر ہے جس کی فی سبیل اللہ خدمت کی جانی چاہئیے۔ ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب فتوی کمیٹیمحدث فتوی |