سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(532) تیرہ ذوالحجۃ کو زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں

  • 1367
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1657

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سعودیہ سے باہر کے ایک حاجی کی واپسی کا وقت ۱۳ ذوالحجہ کو چار بجے عصر کے قریب طے ہے۔ وہ بارہ تاریخ کو رمی کے بعد منیٰ سے باہر نہیں نکلا اور تیرہویں رات اسے منیٰ ہی میں گزارنی پڑی تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ صبح کو رمی کر کے روانہ ہو جائے کیونکہ اگر اسے زوال کے بعد تک تاخیر ہوگئی تو وہ سفر نہیں کر سکے گا اور اسے بہت مشکل پیش آئے گی؟ اگر جواب عدم جواز کا ہے، تو کیا کسی رائے کے مطابق زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

زوال سے پہلے اس کے لیے رمی کرنا جائز نہیں، البتہ اس حالت میں ضرورت کی وجہ سے اس سے رمی ساقط ہو جائے گی اور اس کے لیے فدیے کا ایک جانور منیٰ یا مکہ میں ذبح کرنا ہوگا یا وہ کسی کو جانور ذبح کرنے کے لیے اپنا وکیل مقرر کر دے، اس جانور کا گوشت فقرا میں تقسیم کر دیا جائے اور وہ طواف وداع کر کے چلا جائے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا کسی رائے کے مطابق زوال سے قبل رمی کرنا جائز ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایک رائے کے مطابق قبل از زوال رمی جائز ہے لیکن یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ عید کے بعد کے دنوں میں قبل از زوال رمی کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«ٔخُذُوْا عنی مَنَاسِکَکُمْ» (صحيح البخاري، العلم، باب الفتيا وهو واقف علی الدابة وغيرها، ح: ۸۳، وصحيح مسلم، الحج، باب استحباب رمی جمرة العقبة يوم النحر، ح: ۱۲۹۷، واللفظ له)

’’تم اپنے حج کے احکام مجھ سے سیکھو۔‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان دنوں میں زوال کے بعد ہی رمی فرمائی تھی۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا زوال کے بعد رمی کرنا مجرد فعل ہے اور مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا تو ہم عرض کریں گے کہ یہ صحیح ہے کہ مجرد فعل ہے اور مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کا مجرد فعل ہونا اس لیے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے زوال کے بعد رمی کی تھی اور یہ حکم نہیں فرمایا تھا کہ رمی زوال کے بعد ہو، نیز زوال سے پہلے رمی سے آپ نے منع نہیں فرمایا تھا۔ مجرد فعل کا وجوب کی دلیل نہ ہونا اس لیے ہے کہ وجوب تو اس صورت میں ہوتا ہے کہ کسی فعل کا حکم دیا گیا ہو یا کسی فعل کے ترک سے منع کیا گیا ہو لیکن ہم یہ عرض کریں گے کہ یہاں قرینہ موجود ہے کہ یہ فعل وجوب کے لیے ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا زوال تک رمی کو مؤخر کرنا اس کے وجوب کی دلیل ہے۔ اگر رمی قبل از زوال بھی جائز ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ضرور قبل از زوال رمی فرماتے کیونکہ اس میں لوگوں کے لیے آسانی اور سہولت تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب دو کاموں میں اختیار دے دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کام کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔ یہاں آپ نے اگر آسان کام یعنی رمی قبل از زوال کو اختیار نہیں فرمایا تو معلوم ہوا کہ یہ گناہ ہے۔ اس فعل کے وجوب کے لیے دوسری دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  زوال کے فوراً بعد نماز ظہر سے پہلی رمی فرمایا کرتے تھے، گویا آپ شدت سے زوال کا انتظار فرماتے تاکہ جلدی سے رمی کر لیں، اسی وجہ سے نماز ظہر کو بھی مؤخر کر دیتے حالانکہ اسے اول وقت پر ادا کرنا افضل ہے۔ یہ سب کچھ زوال کے بعد رمی کرنے کے لیے ہواکرتا تھا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ451

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ