السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ ثابت ہے کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کو ثقہ یا صدوق قرار دیا تھا؟ تحقیق کرکے جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیراً
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے علم کے مطابق امام یحییٰ بن معین البغدادی رحمہ اللہ کی طرف منسوب توثیق ابی حنیفہ والی تمام روایات کی تحقیق درج ذیل ہے:
۱)امام ابوزکریا یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا: کیا ابوحنیفہ حدیث میں سچ بولتے تھے؟ انھوں نے کہا: ’’نعم صدوق‘‘ جی ہاں! سچے تھے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبرج۲ ص۱۴۹، مقام ابی حنیفہ از سرفراز خان صفدردیوبندی ص۱۲۸)
یہ روایت تین وجہ سے مردود بلکہ موضوع ہے:
اول: اس کا راوی محمد بن الحسین الازدی ضعیف و مجروح ہے۔
دیکھئے تاریخ بغداد (ج۲ص۲۴۴ ت۷۰۹)
حافظ ابن حجر نے کہا: اورازدی ضعیف ہے۔ الخ (ہدی الساری ص۳۸۲ ترجمۃ احمد بن شبیب)
دوم: ازدی سے امام ابن معین تک سند نامعلوم ہے لہٰذا یہ روایت منقطع و بے سند ہے۔
سوم: حافظ ابن عبدالبر سے ازدی تک سند نامعلوم ہے۔
نیز دیکھئے ایک سوال کے جواب میں میرا مضمون: سرفراز خان صفدر کا علمی و تحقیقی مقام؟ روایت نمبر ۹
۲)احمد بن محمدالبغدادی سے روایت ہے کہ (امام) یحییٰ بن معین نے ابوحنیفہ کے بارے میں کہا: عادل اور ثقہ تھے، جن کی تعدیل ابن المبارک اور وکیع کریں، اس کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ (مناقب کردری ج۱ص۹۱، مقام ابی حنیفہ ص۱۲۸)
یہ روایت کردری (متوفی ۸۲۷ھ) نے کسی امام (؟) نسفی سے بغیر سند کے ذکر کی ہے اور نسفی سے لے کر احمد بن محمد البغدادی تک سند حذف کردی ہے۔
احمد بن محمدالبغدادی کون تھا؟ یہ بھی (برمودا تکون کی طرح) رازوں میں سے ایک راز ہے۔ ان تین علتوں اور مخالفِ ثقات کی وجہ سے یہ روایت مردود ہے۔
۳)احمد نامی کسی شخص سے روایت ہے کہ یحییٰ بن معین سے ابوحنیفہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ حدیث میں ثقہ تھے؟ تو انھوں نے کہا: ہاں ثقہ تھے، ثقہ تھے، اللہ کی قسم ان کی شان اس سے بہت بلندوبالا تھی کہ وہ جھوٹ بولتے۔ (مناقب موفق المعتزلی ج۱ص۱۹۲، مناقب کردری ج۱ص۲۲۰، مقام ابی حنیفہ ص۱۲۹)
مناقبِ موفق کا پہلا راوی موفق بن احمد معتزلی تھا۔ دیکھئے مناقب الکردری (ج۱ص۸۸) نیز یہ رافضی بھی تھا۔ اس کی توثیق کسی قابلِ اعتماد محدث سے ثابت نہیں ہے۔
اس کا استاد ابوالحسن علی بن الحسین الغزنوی تشیع کی طرف مائل (یعنی شیعہ) تھا۔ دیکھئے المنتظم لابن الجوزی (۱۸؍۱۰۹، وفیات ۵۵۱ھ) اور سیر اعلام النبلاء (۲۰؍۳۲۵)
غزنوی کا استاد حسین بن محمد بن خسرو البلخی معتزلی تھا۔ (دیکھئے میزان الاعتدال ۱؍۵۴۷ ت ۲۰۵۵ اور لسان المیزان ۲؍۳۱۲)
یہ ضعیف اور حاطب لیل بھی تھا۔ دیکھئے لسان المیزان (۲؍۳۱۲، دوسرا نسخہ ۲؍۵۷۸) کسی معتبر و مستند محدث سے اس کی توثیق ثابت نہیں ہے۔
ابن خسرو کا استاد ابو منصور الشحی نامعلوم ہے۔
الشحی کا استاد ابوالقاسم التنوخی (علی بن المحسن بن علی) البصری البغدادیؒ معتزلی اور رافضی تھا۔ دیکھئے سیراعلام النبلاء (۱۷؍۶۵۰ت۴۴۰)
ابوالقاسم التنوخی کے باپ محسن بن علی بن محمد بن ابی الفہم نے یہ روایت کسی ابوبکر سے بیان کی، جو غیرمتعین ہے۔
ابوبکر نے یہ روایت احمد نامی شخص سے بیان کی جو کہ سراسر غیرمتعین ہے اور اگر اس سے احمد بن محمد البغدادی مراد لیا جائے تو وہ مجہول تھا جیسا کہ نمبر ۲کی تحقیق میں گزر چکا ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ ساری سند ظلمات اور گمراہوں کی وجہ سے موضوع ہے۔
کردری نے یہ روایت بغیر سند کے مرغینانی غزنوی (علی بن الحسین؍شیعہ) سے اوپر والی سند حذف کرکے بیان کی، جس پر تبصرہ اوپر گزر چکا ہے۔ ضعف الطالب والمطلوب آلِ دیوبند کی جرأت پر حیرت ہے کہ وہ کس طرح ایسی موضوع، بے اصل اور مردود روایات چن چن کر بطورِ حجت پیش کرتے ہیں؟!
معتزلیوں اور رافضیوں کی روایات کے دروازے بھی ان لوگوں کے لیے دن رات کھلے ہوئے ہیں۔ سبحان اللہ!
۴)محمد بن سعد العوفی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن معین نے کہا:
ابوحنیفہ ثقہ تھے، وہ صرف وہی حدیث بیان کرتے تھے جو ان کو ازبر یاد ہوتی تھی اور جو حدیث ان کو یاد نہ ہوتی تھی تو وہ اس کو بیان نہیں کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد ج۱۳ ص۴۱۹ طبع مصر، دوسرا نسخہ ص۴۴۹، مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص۸۱، مقام ابی حنیفہ ص۱۲۹)
مقدمہ تحفۃ الاحوذی (ص۸۱) میں یہ روایت بحوالہ تہذیب التہذیب منقول ہے اور تہذیب التہذیب (ج۱۰ ص۴۵۷۔ ۴۵۸) میں یہ روایت بغیر کسی سند کے محمد بن سعد العوفی سے مذکور ہے۔ تہذیب الکمال للمزی (ج۷ص۳۴۰) میں بھی یہ قول بے سند ہے۔ تاریخ بغداد میں اس کی مکمل سند مذکور ہے، جس پر تبصرہ درج ذیل ہے:
اول: محمد بن سعد العوفی کو خطیب البغدادی (۵؍۳۲۹) اور ابن الجوزی (المنتظم ۱۲؍۲۸۰ ت ۱۸۳۵) دونوں نے لین (یعنی ضعیف) کہا اور دارقطنی نے ’’لا باس یہ‘‘ قرار دیا۔ (دیکھئے سوالات الحاکم: ۱۷۸)
جمہور کی ترجیح کی وجہ سے جرح مقدم ہے۔
دوم: العوفی کا شاگرد محمد بن احمد بن عصام نامعلوم (یعنی مجہول) ہے۔
سوم: ابن عصام کا شاگرد احمد بن علی بن عمرو بن حبیش الرازی ہے، جس کی توثیق نامعلوم ہے۔ ایک ضعیف اور دو مجہول راویوں کی وجہ سے یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔
۵)صالح بن محمدالاسدی سے روایت ہے کہ (امام) یحییٰ بن معین نے فرمایا:
ابوحنیفہ حدیث میں ثقہ تھے۔ (تہذیب التہذیب ج۱۰ص۴۵۰، مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص۸۱، مقام ابی حنیفہ ص۱۲۹، اور تہذیب الکمال ۷؍۳۴۰)
مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں یہ روایت بحوالہ تہذیب التہذیب منقول ہے اور تہذیب التہذیب میں یہ بے سند ہے۔ تہذیب التہذیب کی اصل: تہذیب الکمال میں بھی یہ روایت بے سند ہے۔ اس روایت کی کوئی سند ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملی لہٰذا یہ روایت مردود ہے۔
ہمارے شیخ ابومحمدبدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ھذا لایعرف سندہ‘‘ اس کی سند نامعلوم ہے۔ (انماء الزکن فی تنقید انہاء السکن ص۶۶)
۶)احمد بن احجر المکی الہیتمی (۹۰۹۔ ۹۷۳ھ) نامی ایک بدعتی نے اپنی پیدائش سے صدیوں پہلے وفات پانے والے امام یحییٰ بن معین سے بغیر کسی سند سے نقل کیا ہے:
اور ابوحنیفہ فقہ و حدیث میں ثقہ و صدوق اور اللہ کے دین میں قابلِ اعتماد اور مامون تھے۔ (الخیرات الحسان ص۴۸، دوسرا نسخہ ص۳۱، مقام ابی حنیفہ ص۱۲۹)
یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردو د ہے۔
تاریخ بغداد (ج۱۳ص۴۵۰) میں یہی روایت احمد بن الصلت الحمانی یعنی ابن عطیہ کی سند سے موجود ہے۔ ابن عطیہ الحمانی مشہور کذاب تھا، جس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے جھوٹے لوگوں میں اتنا بے حیا (بے شرم جھوٹا) اور کوئی نہیں دیکھا۔ (الکامل لابن عدی ج۱ص۲۰۲، دوسرا نسخہ ج۱ص۳۲۷۔ ۳۲۸)
ابن عطیہ یعنی ابن الصلت مذکور کو ابن حبان، دارقطن، ابن ابی الفوارس، خطیب بغدادی، ذہبی، حاکم نیشاپوری، ابونعیم الاصبہانی، ابن الجوزی اور ابن کثیر نے حدیثیں گھڑنے والا (یعنی بڑا جھوٹا) قرار دیا ہے۔
دیکھئے مضمون: سرفراز خان صفدر کا علمی و تحقیقی مقام؟ روایت نمبر۱
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ درج بالا قول موضوع (من گھڑت) ہے، جسے ابن حجر مکی (بدعتی) نے سند حذف کرکے رواج دینے کی کوشش کی ہے لہٰذا اس کی کتاب ’’الخیرات الحسان‘‘ سراسر ناقابلِ اعتماد ہے بلکہ اس کی ساری کتابیں غیرمستند اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔
۷)عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورقی (ثقہ) سے روایت ہے کہ یحییٰ بن معین نے ابوحنیفہ کے بارے میں فرمایا: وہ ثقہ تھے، میں نے کسی سے نہیں سنا کہ کسی ایک نے بھی انھیں ضعیف کہا ہو اور یہ شعبہ بن الحجاج ہیں جو ان کی طرف لکھتے تھے کہ وہ حدیث بیان کریں اور انھیں حکم دیتے تھے اور شعبہ شعبہ تھے۔ (الانتقاء لابن عبدالبر ص۱۲۷، الجواہر المضیہ ج۱ ص۲۹، مقام ابی حنیفہ ص۱۳۰)
الجواہر المضیۂ لعبد القادر القرشی (متوفی ۷۷۵ھ) میں یہ روایت بحوالہ الانتقاء منقول ہے۔ الانتقاء میں اس کا بنیادی راوی ابویعقوب یوسف بن احمد بن یوسف المکی الصیدلانی (ابن الدخیل) مجہول الحال ہے۔ اس کا ذکر تاریخ الاسلام للذہبی (۲۷؍۱۷۸، وفیات ۳۸۸ھ) اور العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین للفاسی (۷؍۴۸۲ت۲۷۶۴) وغیرہما میں بغیر کسی جرح و تعدیل کے مذکور ہے۔
کوثری گروپ کے ایک غالی تقلیدی ابوالوفاء الافغانی نے سخت افسوس کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ’’ومن الاسف انی لم اجد ترجمته فی کتب الرجال ولا فی الطبقات‘‘ اور افسوس! کہ مجھے اس کے حالات اسماء الرجال کی کتابوں میں نہیں ملے اور نہ کتبِ طبقات میں ملے ہیں۔ (مقدمۃ اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری ص ج بقلم ابی الوفاء الافغانی: رئیس لجنۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد، الہند)
مجہول کے لیے افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اصولِ حدیث کی رو سے اس کی ہر روایت رد کر دینا ہی صحیح ہے الایہ کہ معتبر متابعت یا شاہد ثابت ہو۔
سرفراز خان نے روایتِ مذکورہ میں عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورتی کی توثیق تو بیان کردی لیکن ابن الدخیل الصیدلانی کی توثیق سے مکمل خاموشی برتی۔!
ابن الدخیل کا استاذ احمد بن الحسن الحافظ غیرمتعین ہونے کی وجہ سے بمنزلۂ مجہول ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ سند ضعیف و مردود ہے۔
اس ضعیف سند کے برعکس امام شعبہ بن الحجاج سے صحیح و ثابت سند کے ساتھ نعمان بن ثابت پر جرح منقول ہے۔ مثلاً دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی (۴؍۲۸۱، وفی نسخہ اخری ۳؍۴۳۳وسندہ صحیح) اور کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل (۳۴۵وسندہ صحیح)
۸)عباس بن محمد الدوری سے روایت ہے کہ یحییٰ بن معین نے کہا:
’’کان ابوحنیفة انبل من ان یکذب، کان صدوقا الا ان فی حدیثه ما فی حدیث الشیوخ‘‘ ابوحنیفہ جھوٹ بولنے سے بہت بلند تھے، وہ سچے تھے مگر ان کی حدیث میں، ایسی باتیں ہیں جو شیوخ کی حدیث میں ہوجاتی ہیں۔ (تاریخ بغداد ۱۳؍۴۴۹)
اس روایت کی سند موضوع ہے کیونکہ اس کا راوی احمد بن عبدالرحمٰن بن الجارودالرقی کذاب تھا۔
ابن الجارود کے بارے میں خطیب بغدادی نے کہا: ’’فانہ کذاب‘‘ پس بے شک وہ کذاب (جھوٹا) ہے۔ (تاریخ بغداد ج۲ص۲۴۷ت۷۱۶)
نیز دیکھئے لسان المیزان (ج۱ص۲۱۳، دوسرا نسخہ ج۱ص۳۱۹۔ ۳۲۰)
۹)نصر بن محمد البغدادی سے روایت ہے کہ (امام) یحییٰ بن معین فرماتے تھے:
محمد بن الحسن (بن فرقد الشیبانی) کذاب تھا اور جہمی تھا، اور ابوحنیفہ جہمی تھے اور کذاب نہیں تھے۔ (تاریخ بغداد ج۱۳ ص۴۴۹)
اس روایت میں نصر بن محمد نامعلوم ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
اگر اس سے مراد مضر بن محمد البغدادی ہو۔ (دیکھئے التنکیل للیمانی ج۱ص۴۹۰ ت۲۵۶)
تو پھر تاریخ بغداد والی سند صحیح ہے۔
۱۰)احمد بن محمد القاسم بن محرز سے روایت ہے کہ ابن معین کہتے تھے:
’’کان ابوحنیفة لاباس به وکان لا یکذب۔۔۔ابوحنیفة عندنا من اهل الصدق ولم یتهم بالکذب‘‘ ابوحنیفہ لاباس بہ (یعنی ثقہ) تھے، وہ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔۔۔ ہمارے نزدیک ابوحنیفہ سچے لوگوں میں سے تھے اور ان پر جھوٹ ک تہمت نہیں لگی۔۔۔ (تاریخ بغداد ج۱۳ص۴۴۹)
یہ روایت تین وجہ سے ضعیف و مردود ہے:
اول: احمد بن محمد بن القاسم بن محرز کی توثیق نامعلو م ہے۔
دوم: جعفر بن درستویہ کے حالات اور ثقہ ہونا نامعلوم ہے۔
سوم: احمد بن مسعدہ الفزاری نامعلوم ہونے کی وجہ سے مجہول ہے۔
امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکاہلی الکوفی کے بارے میں یحییٰ بن معین البغدادی کی توثیق کی یہ کل روایات ہیں، جو ہم تک پہنچی ہیں۔ آپ نے دیکھ لیا کہ یہ سب روایات ضعیف ومردود ہیں، ان میں سے ایک بھی صحیح یا حسن لذاتہ نہیں لہٰذا ان روایات سے استدلال مردود ہے۔
تنبیہ: میرے علم کے مطابق خیرالقرون کے زمانے میں (۸۰ھ سے لے کر ۳۰۰ھ تک) کسی ایک مستند و قابلِ اعتماد محدث و عالم دین سے امام ابوحنیفہ کی مطلقاً صریح توثیق ثابت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص مطلقاً ثقہ و صدوق کا ایک صریح حوالہ دورِمذکور سے باسند صحیح پیش کردے تو ہم اس کے ازحد ممنون ہوںگے۔ یادرہے کہ بے سند حوالوں یا الزامی جواب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ان توثیقی روایات کے بعد اب جرح والی روایات اور ان کی تحقیق پیشِ خدمت ہے:
۱)معتدل امام ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی رحمہ اللہ (متوفی ۳۶۵ھ) نے فرمایا: ’’ثنا علی بن احمد بن سلیمان: ثنا بن ابی مریم قال: سالت یحییٰ بن معین عن ابی حنیفة قال: لا یکتب حدیثه‘‘ ہمیں علی بن احمد بن سلیمان (علان) نے حدیث بیان کی(کہا): ہمیں (احمد بن سعد) ابن ابی مریم نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے ابوحنیفہ کے بارے میں یحییٰ بن معین سے پوچھاَ؟ انھوں نےفرمایا: اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ (الکامل فی ضعفا الرجال ج۷ص۲۴۷۳وسندہ صحیح)
اسے خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (۱۳؍۴۵۰) میں اور ابن الجوزی نے المنتظم (۸؍۱۳۷، من طریق الخطیب) میں علی بن احمد بن سلیمان المقریٔ (علان) سے روایت کیا ہے۔ اس کی سند صحیح ہے۔ اس قول کو حافظ ذہبی نے اپنی کتاب دیوان الضعفاء (۲؍۴۰۴ت ۴۳۸۹) میں بطورِ جزم بیان کیا ہے۔
امام ابن عدی مشہور ثقہ امام تھے۔ ابوسعد عبدالکریم بن محمد بن منصور السمعانی (متوفی۵۶۲ھ) نے کہا: ’’وکان حافظا متقنا، لم یکن فی زمانہ مثلہ۔۔۔‘‘
وہ ثقہ حافظ تھے، ان کے زمانے میں ان جیسا کوئی نہیں تھا۔۔۔ (الانساب ۲؍۴۱، الجرجانی)
امام دارقطنی نے الکامل لابن عدی کے بارے میں کہا: یہ (کتاب) کافی ہے، اس پر اضافہ نہیں کیا جاتا۔ (تاریخ جرجان للامام حمزہ السہمی:۴۴۳)
حافظ ذہبی نے کہا: ’’هوالامام الحافظ الناقد۔۔۔‘‘ (سیر اعلان النبلاء ۱۶؍۱۵۴)
حافظ بابن عساکر نے کہا: ’’وکان مصنفا حافظا ثقة علی لحن فیه‘‘
وہ مصنف حافظ ثقہ تھے، ان کے کلام میں لحن تھا۔ (تاریخ دمشق ج۳۳ص۵)
حمزہ بن یوسف السہمی نے اپنے استاذ امام ابن عدی کے بارے میں فرمایا:
وہ حافظ متقن (ثقہ) تھے، ان کے زمانے میں ان جیسا کوئی نہیں تھا۔۔۔ (تاریخ جرجان: ۴۴۳ ص۱۱۷، تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۳؍۶وسندہ صحیح)
ابن عدی کے بارے میں محمد بن عبدالرحمٰن السخاوی (صوفی) نے کہا:
’’وقسم معتدل کاحمد والدارقطنی وابن عدی‘‘ اور ایک گروہ معتدل (انصاف والا) ہے جیسے احمد (بن حنبل)، دارقطنی اور ابن عدی۔ (المتکلمون فی الرجال ص۱۳۷)
حافظ ذہبی نے کہا: ’’وقسم کالبخاری واحمد بن حنبل وابی زرعۃ وابن عدی: معتدلون منصفون۔‘‘ اور ایک گروہ جیسے بخاری، احمد بن حنبل، ابوزرعہ اور ابن عدی: یہ معتدل (اور) انصاف کرنے والے تھے۔(ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل ص۱۵۹)
بہت بعد کے زمانے (شرالقرون) میں بعض آلِ تقلید نے امام ابن عدی پر تعصب کا الزام لگایا ہے جو کہ درج بالاتوثیق کی وجہ سے مردود ہے۔
ابن عدی کے استاذ علی بن احمد بن سلیمان بن ربیعہ الصیقل المصری: علان ثقہ تھے۔ حافظ ذہبی نے کہا: ’’الامام المحدث العدل‘‘ وہ امام محدث (اور) عادل تھے۔ (سیراعلام النبلاء ۱۴؍۴۹۶)
ابوسعید بن یونس المصری نے کہا: ’’کان ثقہ کثیر الحدیث۔۔۔‘‘ وہ ثقہ تھے، ان کی حدیثیں زیادہ ہیں۔۔ (تاریخ ابن یونس المصری: تاریخ المصریین، القسم الاول ج۱ص۳۵۵ ت۹۷۱)
آگے لکھا ہے: ’’وفی خلقه زعارة‘‘ اور ان کے اخلاق میں تندخوئی تھی۔ (ایضا ص۳۵۶)
جمہور کی توثیق کے بعد تندخوئی والی جرح مردود ہے۔
علان کے استاذ احمد بن سعد بن الحکم بن محمد بن سالم عرف ابن ابی مریم (متوفی۲۵۳ھ) صدوق تھے۔ دیکھئے تقریب التہذیب (۳۵)
خلاصہ یہ کہ یہ سند صحیح ہے۔
۲)امام عبداللہ بن حنبل نے کہا:
’’حدثنی ابوالفضل: ثنا یحیی بن معین قال: کان ابوحنیفة مرجئا وکان من الدعاة ولم یکن فی الحدیث بشی وصاحبه ابویوسف لیس به باس‘‘ مجھے ابوالفضل (حاتم بن اللیث الخراسانی) نے حدیث بیان کی، ہمیں یحییٰ بن معین نے حدیث بیان کی، کہا: ابوحنیفہ مرجی تھے اور (اس طرف) دعوت دینے والے تھے اور وہ حدیث میں کچھ چیز نہیں تھے اور ان کا ساتھی (شاگرد) ابویوسف (القاضی) لیس بہ باس (یعنی ثقہ) ہے۔ (کتاب السنۃ:۴۰۲وسندہ صحیح، مخطوط مصور ص۲۲ الف)
عبداللہ بن احمد بن حنبل ثقہ تھے۔
دیکھئے تقریب التہذیب (۳۲۰۵) اور میری کتاب: علمی مقالات (ج۱ص۳۹۲)
ابوالفضل حاتم بن اللیث الخراسانی ثقہ تھے۔
دیکھئے تاریخ بغداد (۸؍۲۴۵ ت ۴۳۴۶) کتاب الثقات لابن حبان (۸؍۲۱۱) اور المنتظم لابن الجوزی (۱۲؍۱۷۵ت ۱۶۷۰، وفیات ۲۶۲ھ)
خلاصہ یہ کہ یہ سند بالکل صحیح ہے۔
تنبیہ: قاضی ابویوسف کو چونکہ جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا تھا لہٰذا تحقیقِ راجح میں وہ ضعیف تھے۔ دیکھئے علمی مقالات (ج۱ص۵۳۳۔ ۵۴۸)
امام یحییٰ بن معین سے قاضی ابویوسف کی توثیق والی دیگر روایات بھی ہیں۔
دیکھئے علمی مقالات (ج۱ص۵۳۵)
دوسری طرف یہ بھی صحیح روایت ہے کہ یحییٰ بن معین نے قاضی ابویوسف کے بارے میں کہا: ’’لایکتب حدیثه‘‘ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ (الکامل لابن عدی ۸؍۴۶۶وسندہ صحیح، تاریخ بغداد ۱۴ء۲۵۸، نیز دیکھئے علمی مقالات ج۱ص۵۳۹)
اس صحیح روایت اور جمہور کی جرح کی رو سے امام ابن معین کی قاضی ابویوسف کے بارے میں توثیقی روایات منسوخ ہیں۔
۳)ابوخالد یزید بن الہیثم الدقاق الباد نے اپنی کتاب میں کہا:
میں نے یحییٰ (بن معین) کو فرماتے ہوئے سنا : وہ حدیث جسے موسیٰ بن ابی عائشہ عن عبداللہ بن (شداد) عن جابر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سند سے ابوحنیفہ روایت کرتے تھے: من کان لہ امام فقراء ۃ امامہ لہ قراء ۃ(جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے) یہ حدیث کچھ چیز نہیں ہے، یہ صرف عبداللہ بن شداد (سے یعنی مرسل) ہے۔ (من کلام یحییٰ بن معین فی الرجال ص۱۲۱ رقم ۳۹۷)
یہ قول ابن معین سے صحیح ثابت ہے۔ یزید بن الہیثم بن طہمان ثقہ تھے۔
دیکھئے سوالات الحاکم النیسابوری للدارقطنی (۲۴۳) تاریخ بغداد (۱۴؍۳۴۹ت ۷۶۶۶) اور المنتظم (طبعہ قدیمہ ۵؍۱۷۵، طبعہ جدیدہ ۱۲؍۳۷۶ وفیات ۲۸۴ھ)
۴)محمد بن عثمان بن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
یحییٰ بن معین سے ابوحنیفہ کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے انھیں (یہ) فرماتے ہوئے سنا: ’’کان یضعف فی الحدیث‘‘ وہ حدیث میں ضعیف قرار دیا جاتا تھا۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلی ۴؍۲۸۵ وسندہ حسن، تاریخ بغداد ۱۳؍۴۵۰ وسندہ حسن، مسالۃ الاحتجاج بالشافعی للخطیب ص۵۹)
اس روایت کو عقیلی اور ہبۃ اللہ بن محمد بن حبیش الفراء (ثقہ؍ تاریخ بغداد ۱۴؍۷۰ت ۷۴۱۶)
دونوں نے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ سے بیان کیا ہے اور محمد بن عثمان مذکور جمہور محدثین کی توثیق کی وجہ سے حسن الحدیث تھے۔ دیکھئے علمی مقالات (ج۱ ص۴۷۵۔ ۴۸۳) ان پر ابن عقدہ (رافضی اور چور) کی جرح مردود ہے۔
۵)خطیب بغدادی نے کہا:
’’اخبرنا عبیداللہ بن عمر الواعظ: حدثنا ابی: حدثنا محمد بن یونس الارزق: حدثنا جعفر بن ابی عثمان قال: سمعت یحییٰ وسالته عن ابی یوسف وابی حنیفة فقال: ابویوسف اوثق منه فی الحدیث، قلت: فکان ابوحنیفه یکذب؟ قال: کان انبل فی نفسه من ان یکذب‘‘
جعفر بن ابی عثمان (الطیالسی) سے روایت ہے کہ میں نے یحییٰ (بن معین) سے ابویوسف اور ابوحنیفہ کے بارے میں پوچھا؟ تو انھوں نے فرمایا: حدیث میں ابویوسف اس سے زیادہ ثقہ تھے۔ میں(جعفر) نے کہا: کیا ابوحنیفہ جھوٹ بولتے تھے؟ انھوں نے کہا: وہ جھوٹ بولنے سے فی نفسہٖ بہت بلند تھے۔ (تاریخ بغداد ج۱۳ ص۴۴۹ وسندہ صحیح)
اس کی سند صحیح ہے اور راویوں کا مختصر حال درج ذیل ہے:
(۱)عبیداللہ بن عمر الواعظ صدوق (سچے) تھے۔ (تاریخ بغداد ج۱۰ص۳۸۶ ت۵۵۶۱)
(۲)عمر بن احمد بن عثمان المعروف بابن شاہین البغدادی ثقہ امین تھے۔ (تاریخ بغداد ج۱۱ص۲۶۵ ت۶۰۲۸)
نیز دیکھئے سیراعلام النبلاء (۱۶؍۴۳۱) اور تذکرۃ الحفاظ (۳؍۹۸۸)
(۳)محمد بن یونس الارزق ثقہ تھے۔ (تاریخ بغداد ۳؍۴۴۶ت۱۵۷۶)
(۴)جعفر بن ابی عثمان الطیالسی ثقہ ثبت تھے۔ (تاریخ بغداد۷؍۱۸۸ ت۳۶۴۰)
یہاں پر بطورِ فائدہ عرض ہے کہ ابویوسف کا نعمان بن ثابت سے زیادہ ثقہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام یحییٰ بن معین کے نزدیک قاضی ابویوسف: ’’لایکتب حدیثہ‘‘ تھے۔ دیکھئے تجریحی روایت نمبر۲، لہٰذا توثیقی روایات منسوخ ہیں۔ واللہ اعلم
قاضی ابویوسف کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے لہٰذا نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر ان کی ترجیح کا مطلب یہ ہے کہ نعمان جمہور بلکہ بہت زیادہ محدثین کے نزدیک مجروح تھے۔
اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے امام ابوحنیفہ کی توثیق ثابت نہیں بلکہ جرح اور تضعیف ثابت ہے۔
عبدالغفار دیوبندی نامی ایک شخص نے امام ابن معین کے بارے میں لکھا ہے:
’’الحنفی المقلد‘‘ (دیوبندی رسالہ: قافلۂ حق ج۳شمارہ:۴ ص۱۹)
عبدالغفار کی یہ بات بالکل جھوٹ بلکہ کالا جھوٹ ہے۔
امام ابن معین کا مقلد ہونا قطعاً ثابت نہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ حنفی ہوں اور پھر اپنے امام کو ضعیف اور لایکتب حدیثہ کہتے رہیں؟!
وہ نہ حنفی تھے اور نہ مقلد تھے بلکہ عظیم الشان محدث اور جلیل القدر عالم تھے۔ عالم مقلد نہیں ہوتا بلکہ ’’تقلید‘‘ کرنا تو جاہلوں کا کام ہے۔
حافظ ابن عبدالبر الاندلسی (متوفی۴۶۳ھ) نے لکھا ہے:
’’قالوا: والمقلد لاعلم له ولم یختلفوا فی ذلک‘‘ انھوں(علماء) نے کہا: اور مقلد لاعلم ہوتا ہے اور اس میں ان کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ ج۲ص ۱۱۷، اعلام الموقعین ج۲ص۱۹۷)
حافظ ابن القیم نے لکھا ہے:
’’واذا کان المقلد لیس من العلماء باتفاق العلماء لم یدخل فی شی من هذه النصوص‘‘ اور جب علماء کے اتفاق کے ساتھ مقلد علماء میں سے نہیں ہے تو وہ ان دلائل (علم و فضیلت) میں داخل نہیں ہے۔ (اعلام الموقعین ج۲ص۲۰۰)
آلِ دیوبند کی ’’خدمت‘‘ میں عرض ہے کہ کیا وہ امام ابن معین رحمہ اللہ کو بھی اپنے جیسا لاعلم و جاہل سمجھتے ہیں کہ انھیں علماء کی صف سے نکال کر مقلدین میں شامل کردیا ہے؟
یا یہ لوگ خوفِ آخرت سے بے نیاز ہوکر جھوٹی اور باطل باتیں پھیلانے میں ہمہ تن مدہوش ہیں؟!
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب