السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم الشیخ صاحب سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ معروف ہے کہ وہ طبقۂ ثانیہ کے راوی ہیں لہٰذا اُن کی تدلیس مضر نہیں جبکہ آپ کے نزدیک وہ طبقۂ ثالثہ کے ہیں، اس سلسلے میںم دلل لکھیں۔ نیز حال ہی میں فیصل نامی ایک بریلوی شخص نے ’’نور العینین کا محققاانہ تجزیہ‘‘ کتاب لکھی ہے، جس میں کافی مغالطات و شبہات وارد کئے گئے ہیں، اس کی بھی حقیقت واضح کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سلسلے میں ایک تفصیلی مضمون ’’ماہنامہ الحدیث‘‘ میں چھپ چکا ہے، آپ کے سوال کی مناسبت سے اپنے تحقیقی مضمون ہی کو پیش خدمت کیا جاتا ہے:
الحمدلله رب العالمین و الصلوة و السلام علی رسوله الامین، اما بعد:
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ کو مدلسین کے طبقۂ ثانیہ میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے طبقات المدلسین: ۲/۵۱، الفتح المبین ص۳۹)
حافظ ابن حجر کی یہ تحقیق کئی لحاظ سے غلط ہے، جس کی فی الحال تیس (۳۰) دلیلیں اور حوالے پیش خدمت ہیں:
۱) امام ابو حنیفہ نے عاصم عن ابی رزین عن ابن عباس کی سند سے ایک حدیث بیان کی کہ مرتدہ کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ دیکھئے سنن دارقطنی (۲۰۱/۳ ح۳۴۲۲) الکامل لابن عدی (۲۴۷۲/۷) السنن الکبریٰ للبیہقی (۲۰۳/۸) کتاب الام للشافعی (۱۶۷/۶) اور مصنف ابن ابی شیبہ (۱۰۴/۱۰ ح۲۸۹۸۵) وغیرہ
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: ابو حنیفہ پر اس کی بیان کردہ ایک حدیث کی وجہ سے (سفیان) ثوری نکتہ چینی کرتے تھے جسے ابوحنیفہ کے علاوہ کسی نے بھی عاصم عن ابی رزین (کی سند) سے بیان نہیں کیا۔ (سنن دارقطنی ۲۰۰/۳ ح۳۴۲۰ وسندہ صحیح)
امام عبدالرحمن بن مہدی نے فرمایا: میں نے سفیان (ثوری) سے مرتدہ کے بارے میں عاصم کی حدیث کا پوچھا تو انھوں نے فرمایا: یہ روایت ثقہ سے نہیں ہے۔ (الانتقاء لابن عبدالبرص ۱۴۸، و سندہ صحیح)
ی وہی حدیث ہے جسے خود سفیان ثوری نے ’’عن عاصم عن ابی رزین عن ابن عباس‘‘ کی سند سے بیان کیا تو ان کے شاگرد امام ابو عاصم (الضحاک بن مخلد النبیل) نے کہا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سفیان ثوری نے اس حدیث میں ابوحنیفہ سے تدیس کی ہے لہٰذا مں نے دونوں سندیں لکھ دی ہیں۔ (سنن دارقطنی ۲۰۱/۳ ح۳۴۲۳ و سندہ صحیح)
اس سے معلوم ہوا کہ امام سفیان ثوری اپنے نزدیک غیر ثقہ (ضعیف) راوی سے بھی تدلیس کرتے تھے۔ حافظ ذہبی نے لکھا ہے: وہ (سفیان ثوری) ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔ الخ (میزان الاعدتال ۱۶۹/۲، نیز دیکھئے سیر اعلام النبلاء ۲۴۲/۷، ۲۷۴)
اصولِ حدیث کا ایک مشہور قاعدہ ہے کہ جو راوی ضعیف راویوں سے تدلیس کرے تو اس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ حافظ ذہبی نے لکھا ہے:
’’ثم ان کان المدلس عن شیخه ذا تدلیس عن الثقات فلا باس، و ان کان ذا تدلیس عن الضعفاء فمردود‘‘ پھر اپنے استاذ سے تدلیسکرنے والا اگر ثقہ راویوں سے تدلیس کرے تو (اس کی روایت میں) کوئی حرج نہیں ہے اور اگر ضعیف راویوں سے تدلیس کرے تو (اس کی روایت) مردود ہے۔ (الموقظہ فی علم مصطلح الحدیث للذہبی ص۴۵، مع شرحہ کفایۃ الحفظہ ص۱۹۹)
ابوبکر الصیر فی (محمد بن عبداللہ البغدادی الشافعی/ متوفی ۳۳۰ھ) نے اپنی کتاب الدلائل میں کہا: ’’کل من ظهر تدلیسه عن غیر الثقات لم یقبل خبره حتی یقول: حدثنی او سمعت‘‘ ہر وہ شخص جس کی، غیر ثقہ راویوں سے تدلیس ظاہر ہو جائے تو اس کی حدیث قبول نہیں کی جاتی الا یہ کہ وہ حدثنی یا سمعت کہے / یعنی سماع کی تصریح کرے۔ (النکت للزرکشی ص۱۸۴، نیز دیکھئے التبصرہ والتذکرہ شرح الفیۃ العراقی ۱۸۳/۱، ۱۸۴)
اصولِ حدیث کے اس قاعدے سے صاف ثابت ہے کہ امام سفیان ثوری (اپنے طرزِ عمل کی وجہ سے) طبقۂ ثانیہ کے نہیں بلکہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے۔
۲) امام علی بن عبداللہ المدینی نے فرمایا: لوگ سفیان (ثوری) کی حدیث میں یحییٰ القطان کے محتاج ہیں، کیونکہ وہ مصرح بالسماع روایات بیان کرتے تھے۔ (الکفایہ للخطیب ۳۶۲ و سندہ صحیح، علمی مقالات ج۱ ص۲۶۴)
اس قول سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں:
اول: سفیان ثوری سے یحییٰ بن سعید القطان کی روایت سفیان کے سماع پر محمول ہوتی ہے۔
دوم: امام ابن المدینی امام سفیان ثوری کو طبقۂ اولیٰ یا ثانیہ میں سے نہیں سمجھتے تھے، ورنہ یحییٰ القطان کی روایت کا محتاج ہونا کیا ہے؟
۳) امام یحییٰ بن سعید القطان نے فرمایا: میں نے سفیان (ثور) سے صرف وہی کچھ لکھا ہے، جس میں انھوں نے حدثنی اور حدثنا کہا، سوائے دو حدیثوں کے۔ (کتاب العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد ۲۰۷/۱ ت۱۱۳۰، و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ ج۱ ص۲۴۲ رقم ۳۱۸)
اور وہ دو حدیثیں درج ذیل ہیں:
’’سفیان عن سماک عن عکرمة و مغیرة عن ابراهیم (وان کان من قوم عدولکم) قالا: هو الرجل یسلم فی دار الحرب فیقتل فلیس فیه دیة فیه کفارة‘‘ (کتاب العلل ج۱ ص۲۴۲)
ینی عکرمہ اور ابراہیم نخعی کے دو آثار جنھیں اوپر ذکر کر دیا گیا ہے، ان ک علاوہ یحییٰ القطان کی سفیان ثوری سے ہر روایت سماع پر محمول ہے۔ یحییٰ اقطان کے قول سے ثابت ہوا کہ وہ سفیان ثوری کو طبقۂ ثانیہ سے نہیں سمجھتے تھے ورنہ حدیثیں نہ لکھنے کا کیا فائدہ؟
۴) حافظ ابن حبان البستی نے فرمایا: وہ مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیں، ہم ان کی صرف ان مرویات سے ہی حجت پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کریں۔ مثلاً سفیان ثوری، اعمش اور ابو اسحاق وغیرہم جو کہ زبردست ثقہ امام تھے…الخ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ۹۰/۱، دوسرا نسخہ ۱۶۱/۱، تیسرا نسخہ: ایک جلد والا ص۳۶، علمی مقالات ج۱ ص۲۶۶)
معلوم ہوا کہ حفظ ابن حبان سفیان ثوری اور اعمش کو طبقۂ ثانیہ میں سے نہیں بلکہ طبقۂ ثالثہ میں سے سمجھتے تھے۔
حافظ ابن حبان نے مزید فرمایا: وہ ثقہ راوی جو اپنی احادیث میں تدلیس کرتے تھے مثلاً قتادہ، یحییٰ بن ابی کثیر، اعمش، ابو اسحاق، ابن جریج، ابن اسحاق، ثوری اور ہشیم، بعض اوقات اپنے جس شیخ سے احادیث سنی تھیں، وہ روایت بطورِ تدلیس بیان کر دیتے جسے انھوں نے ضعیف و ناقابلِ حجت لوگوں سے سنا تھا، لہٰذا جب تک مدلس اگرچہ ثقہ ہی ہو، یہ نہ کہے: حدثنی یا سمعت (یعنی جب تک سماع کی تصریح نہ کرے) اس کی خبر (حدیث) سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے۔ (المجروحین ج۱ ص۹۲، علمی مقالات ج۱ ص۲۶۷)
اس گواہی سے دو باتیں ظاہر ہیں:
اول: حافظ ابن حبان سفیان ثوری وغیرہ مذکورین کی وہ روایات حجت نہیں سمجھتے تھے، جن میں سماع کی تصریح نہ ہو۔
دوم: حافظ ابن حبان کے نزدیک سفیان ثوری وغیرہ مذکورین بالاضعیف راویوں سے بھی بعض اوقات تدلیس کرتے تھے۔
۵) حاکم نیشاپوری نے مدلسین کے پہلے طبقے کا ذکر کیا، جو ثقہ راویوں سے تدلیس کرتے تھے، پھر انھوں نے دوسری جنس (طبقۂ ثانیہ) کا ذکر کیا، پھر انھوں نے تیسری جنس (طبقہ، ثالثہ) کا ذکر کیا جو مجہول راویوں سے تتدلیس کرتے تھے۔ (دیکھئے معرفۃ علوم الحدیث ص۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۵)
حاکم نیشاپوری نے امام سفیان بن سعید الثوری کو مدلسین کی تیسری قسم میں ذکر کرکے ےبتایا کہ وہ مجہول راویوں سے روایت کرتے تھے۔ (معرفۃ علوم الحدیث ص۱۰۶، فقرہ: ۲۵۳)
اس عبارت کو حافظ العلائی نے درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’والثالث: من یدلس عن اقوام مجهولین لا یدری من هم کسفیان الثوری………‘‘ اور تیسرے وہ جو مجہول نامعلوم لوگوں سے تدلیس کرتے تھے، جیسے سفیان ثوری…… (جامع التحصیل فی الاحکام المراسیل ص۹۹)
ی عرض کر دیا گیا ہے کہ ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے والے کی معنعن روایت مردود ہوتی ہے۔
صحیحین میں مدلسین کی تمام روایات سماع یا متابعات و شواہد پر محمول ہونے کی وجہ سے صحیح ہیں۔ والحمدللہ
۶) فقرہ نمبر ۱، میں امام ابو عاصم النبیل کا قول گزر چکا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے استاذ امام سفیان ثوری کو طبقۂ اولیٰ یا ثانیہ میں سے نہیں سمجھتے تھے، ورنہ ان کی معنعن روایت کو سماع پر محمول کرتے۔
۷) امام سفیان ثوری نے اپنے استاذ قیس بن مسلم الجدلی الکوفی سے ایک حدیث بیان کی، جس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا: ’’ولا اظن الثوری سمعه من قیس، اراہ مدلسا‘‘ میں نہیں سمجھتا کہ ثوری نے اسے قیس سے سنا ہے، میں اسے مدلس (یعنی تدلیس شدہ) سمجھتا ہوں۔ (علل الحدیث ۲۵۴/۲ ح۲۲۵۵)
معلوم ہوا کہ امام ابو حاتم الرازی امام سفیان ثوری کو طبقۂ ثانیہ میں سے نہیں بلکہ طبقۂ ثالثہ میں سے سمجھتے تھے۔
۸) طبقۂ ثالثہ کے مشہور مدلس امام ہشیم بن بشیر الواسطی سے امام عبداللہ بن المبارک نے کہا: آپ کیوں تدلیس کرتے ہیں، حالانکہ آپ نے (بہت کچھ) سنا بھی ہے؟ تو انھوں نے کہا: دو بڑے (بھی) تدلیس کرتے تھے یعنی اعمش اور (سفیان) ثوری۔ (العلل الکبیر للترمذی ۹۶۶/۲ وسندہ صحیح، التمہید ۲۵/۱، علمی مقالات ۲۷۵/۱)
امام ابن المبارک نے ہشیم پر کوئی رد نہیں کیا کہ یہ دونوں تو طبقۂ ثانیہ کے مدلس ہیں اور آپ طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں بلکہ ان کا خاموش رہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انھوں نے ہشیم کی طرح سفیان ثوری اور اعمش کا مدلس ہوتا تسلیم کر لیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں وہ سفیان ثوری اور اعمش کو بھی طبقۂ ثالثہ میں سے سمجھتے تھے ورنہ ہشیم کا رد ضرور کرتے۔
۹) یہ حقیقت ہے کہ امام ہشیم بن بشیر طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے اور یہ بھی ثابت ہے کہ وہ سفیان ثویر اور اعمش کو اپنی طرح مدلس سمجھتے تھے لہٰذا ثابت ہوگیا کہ سفیان ثوری اور اعمش دونوں ہشیم کے نزدیک طبقۂ اولیٰ یا طبقۂ ثانیہ کے مدلس نہیں تھے۔
۱۰) امام یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ نے فرمایا ’’فاما من دلس عن غیر ثقة و عمن لم یسمع هو منه فقد جاوز حد التدلیس الذی رخص فیه من رخص من العلماء۔‘‘ پس اگر غیر ثقہ سے تدلیس کرے یا اس سے جس سے اس نے نہیں سنا تو اس نے تدلیس کی حد کو پار (عبور) کر لیا جس کے بارے میں (بعض) علماء نے رخصت دی ہے۔ (الکفایۃ للخطیب ص۳۶۱، ۳۶۲ و سندہ صحیح، النکت للزرکشی ص۱۸۸)
اام یعقوب بن شیبہ کے اس قول سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں:
اول: ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے والے کی غیر مصرح بالسماع رایت مردود ہے۔
دوم: مرسل اور منقطع رایت مردود ہے۔
چونکہ سفیان ثوری کا ضعیف راویوں سے تدلیس کرنا ثابت ہے لہٰذا اس قول کی روشنی میں بھی ان کی معنعن روایت مردود ہے۔
۱۱) علامہ نووی شافعی نے سفیان ثوری کے بارے میں کہا:
’’منها ان سفیان رحمه الله تعالیٰ من المدلسین وقال فی الروایة الاولی عن علقمة والمدلس لا یحتج بعنعنته بالاتفاق الا ان ثبت سماعه من طریق آخر……‘‘ اور ان میں سے یہ فائدہ بھی ہے کہ سفیان (ثوری) رحمہ اللہ مدلسین میں سے تھے اور انھوں نے پہلی روایت میں عن علقمۃ کہا اور مدلس کی عن والی روایت بالاتفاق حجت نہیں ہوتی الا یہ کہ دوسری سند میں سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔ (شرح صحیح مسلم درسی نسخہ ج۱ ص۱۳۶ تحت ۲۷۷، دوسرا نسخہ ج۳ ص۱۷۸، باب جواز الصلوات کلھا بوضوء واحد)
ملوم ہوا کہ علامہ نووی حافظ ابن حجر کی طبقاتی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ سفیان ثور ی کو طبقۂ ثالثہ کا مدلس سمجھتے تھے جن کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے الا یہ کہ سماع کی تصریح یا معتبر متابعت ثابت ہو۔
۱۲) عینی حنفی نے کہا: اور سفیان (ثوری) مدلسین مں سے تھے اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی الا یہ کہ اس کی تصریح سماع دوسری سند سے ثابت ہوجائے۔ (عمدۃ القاری ۱۱۲/۳، نور العینین طبع جدید ص۱۳۶، ماہنامہ الحدیث حضرو: ۶۶ ص۲۷)
۱۳) ابن الترکمانی حنفی نے ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے کہا:
’’فیه ثلاثه علل: الثوری مدلس و قد عنعن……‘‘ اس میں تین علتیں (وجۂ ضعف) ہیں: ثوری مدلس ہیں اور انھوں نے یہ روایت عن سے بیان کی ہے…… (الجوہر النقی ج۸ ص۲۶۲)
معلوم ہوا کہ ابن الترکمانی کے نزدیک سفیان ثوری طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے اور ان کا عنعنہ علت قادحہ ہے۔
۱۴) کمانی حنفی نے شرح صحیح بخاری میں کہا:
بے شک سفیان (ثور) مدلسین میں سے ہیں اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی الا یہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔ (شرح الکرمانی ج۳ ص۶۲ تحت ح۲۱۴)
۱۵) قسلطانی شافعی نے کہا: سفیان (ثوری) مدلس ہیں اور مدلس کا عنعنہ قابل حجت نہیں ہوتا الا یہ کہ اس کے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔ (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ج۱ ص۲۸۶، نور العینین طبع جدید ص۱۳۶)
۱۶) حافظ ذہبی کا یہ اصول فقرہ نمبر ۱ میں گزر چکا ہے کہ ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے والے کی معنعن روایت مردود ہوتی ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ حافظ ذہبی کے نزدیک بھی سفیان ثوری کی عن والی روایت مردود ہے اور یہ کہ وہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے۔
۱۷) امام یحییٰ بن معین نے سفیان ثوری کو تدلیس کرنے والے (مدلس) قرار دیا۔
دیکھئے کتاب الجرح و التعدیل (۲۲۵/۴ و سندہ صحیح) اور الکفایۃ (ص۳۶۱ و سندہ صحیح)
امام یحییٰ بن معین سے مدلس کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اس کی روایت حجت ہوتی ہے یا جب وہ حدثنا و اخبرنا کہے تو؟ انھوں نے جواب دیا: ’’لایکون حجۃ فیما دلس‘‘
وہ جس (روایت) میں تدلیس کرے (یعنی عن سے روایت کرے تو) وہ حجت نہیں ہوتی۔ الخ (الکفایۃ للخطیب ص۳۶۲ و سندہ صحیح)
۱۸) حافظ ابن الصلاح الشہرزوری الشافعی نے سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، اعمش، قتادہ اور ہشیم بن بشیر کو مدلسین میں ذکر کیا پھر یہ فیصلہ کیا کہ مدلس کی غیر مصرح بالسماع روایت قابل قبول نہیں ہے۔
دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح (علوم الحدیث ص۹۹ مع القیید والایضاح للعراقی، نوع: ۱۲)
۱۹) حافظ ابن کثیر نے ابن الصلاح کے قائعدۂ مذکورہ کو برقرار رکھا اور عبارت مذکورہ کو اختصار کے ساتھ نقل کیا۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث (مع تعلیق الالبانی ج۱ ص۱۷۴)
۲۰) حافظ ابن الملقمن نے بھی ابن الصلاح کی عبارت مذکورہ کو نقل کیا اور کوئی جرح نہیں کی۔ دیکھئے المقنع فی علوم الحدیث (۱۵۷/۱، ۱۵۸)
۲۱) موجودہ دور کے مشہور عالم اور ذہبیٔ عصر علامہ شیخ عبدالرحمن بن یحییٰ المعلمی الیمانی المکی رحمہ اللہ نے ترک رفع یدین والی روایت (عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسود عن علقمۃ عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) کو معلول قرار دیتے ہوئے پہلی علت یہ بیان کی کہ سفیان (ثوری) تدلیس کرتے تھے اور کسی سند میں ان کے سماع کی تصریح نہیں ہے۔
دیکھئے التنکیل بما فی تانیب الکوثری من الاباطیل (ج۲ ص۲۰)
علامہ یمانی رحمہ اللہ کی اس بات کا جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا۔ نہ کسی نے اس حدیث میں سفیان ثوری کے سماع کی تصریح ثابت کی اور نہ معتبر متابعت پیش کی ہے۔ یہ لوگ جتنا بھی زور لگالیں ترک رفع یدین والی روایت عن سے ہی ہے۔
یاد رہے کہ اس سلسلے میں کتاب العلل للدارقطنی کا حوالہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
۲۲) موجودہ دور کے ایک مشہور عالم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو مدلس قرار دیا اورغیر صحیحین مں ان کی معنعن روایت کو معلول قرار دیا۔
دیکھئے کتاب: احکام و مسائل (تصنیف حافظ عبدالمنان نور پوری ج۱ ص۲۴۵)
ان دلائل و عبارات کے بعد آلِ تقلید (آلِ دیوبندی و آلِ بریلوی) کے بعض حوالے پیش خدمت ہیں:
۲۳) سرفراز خان صفدر دیوبندی کڑمنگی نے ایک روایت پر سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے جرح کی ہے۔ دیکھئے خزائن السنن (۷۷/۲)
۲۴) محمد شریف کوٹلوی بریلوی نے سفیان ثوری کی ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے کہا: ’’اور سفیان کی روایت میں تدلیس کا شبہ ہے۔‘‘ (فقہ الفقیہ ص۱۳۴)
۲۵) مسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی نے ایک روایت پر سفیان ثوریکی تدلیس کی وجہ سے جرح کی۔ دیکھئے مجموعہ رسائل (طبع قدیم ۳۳۱/۳) اور تجلیاتِ صفدر (۴۷۰/۵)
۲۶) محمد عباس رضوی بریلوی نے لکھا ہے: ’’یعنی سفیان مدلس ہے اور یہ روایت انہوں نے عاصم بن کلیب سے عن کے ساتھ کی ہے اور اصول محدثین کے تحت مدلس کا عنعنہ غیرمقبول ہے جیسا کہ آگے انشاء اللہ بیان ہوگا۔‘‘ (مناظرے ہی مناظرے ص۲۴۹)
معلوم ہوا کہ رضوی وغیرہ کے نزدیک سفیان ثوری طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے۔
۲۷) شیر محمد مماتی دیوبندی نے سفیان ثوری کی ایک روایت کے بارے میں لکھا:
’’اور یہاں بھی سفیان ثوری مدلس عنعنہ سے روایت کرتا ہے۔‘‘ (آئینہ تسکین الصدور ص۹۲)
سرفراز صفدر پر رد کرتے ہوئے شیر محمد مذکور نے کہا:
’’مولانا صاحب خود ہی اراہِ کرم انصاف فرمائیں کہ جب زہری ایسے مدلس کی معنعن رایت صحیح تک نہیں ہوسکتی تو سفیان بن سعید ثوری ایسے مدلس کی روایت کیونکر صحیح ہوسکتی ہے جب کہ سفیان ثوری بھی یہاں عنعنہ سے روایت کر رہے ہیں۔‘‘ (آئینہ تسکین الصدور ص۹۰)
معلوم ہوا کہ شیر محمد مماتی کے نزدیک سفیان ثوری اور امام زہری دونوں طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے۔
۲۸) نبوی تقلید نے سفیان ثوری کی بیان کردہ آمین والی حدیث پر یہ جرح کی کہ ثوری بعض اوقات تدلیس کرتے تھے اور انھوں نے اسے عن سے بیان کیا ہے۔
دیکھئے آثار السنن کا حاشیہ (ص۱۹۴ تحت ح۳۸۴)
۲۹) محمد تقی عثمانی دیوبندی نے سفیان ثوری پر شعبہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہوئے کہا: ’’سفیان ثوریؒ اپنی جلالت قدر کے باوجود کبھی کبھی تدلیس بھی کرتے ہیں۔‘‘ (درس ترمذی ج۱ ص۵۲۱)
۳۰) حین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی کانگریسی نے آمین والی روایت کے بارے میں کہا: ’’اور سفیان تدلیس کرتا ہے۔‘‘ الخ (تقریر ترمذی اردو ص۳۹۱ ترتیب: محمد عبدالقادر قاسمی دیوبندی)
اس طرح کے اور بھی بہت سے حوالے ہیں مثلاً:
احمد رضا خان بریلوی نے شریک بن عبداللہ القاضی (طبقۂ ثانیہ ۲/۵۶) کے بارے میں (بطورِ رضا مندی) لکھا کہ
’’تہذیب التہذیب میں کہا کہ عبدالحق اشبیلی نے فرمایا: وہ تدلیس کیا کرتا تھا اور ابن القطان نے فرمایا: وہ تدلیس میں مشہور تھا‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج۲۴ ص۲۳۹)
معلوم ہوا کہ احمد رضا خان کے نزدیک طبقات کی تقسیم صحیح نہیں ہے۔
محدثین کرام کا مشہور قاعدہ ہے کہ صحیحین میں مدلسین کا عنعنہ (عن عن کہنا) سماع پر محمول ہے۔
اس کا رد کرتے ہوئے احمد رضا خان نے کہا: ’’یہ محض اندھی تقلید ہے اگرچہ ہم حسنِ ظن کے منکر نہیں تاہم تخمین (اٹکل پچو سے کچھ کہنا) بالکل صاف بیان کرنے کی طرح نہیں ہوسکتا۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ ح۲۴ ص۲۳۹)
عرض ہے کہ یہ اندھی تقلید اور تخمین نہیں بلکہ امت کے صحیحین کو تلقی بالقبول کی وجہ سے جلیل القدر علماء نے یہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ صحیحین میں مدلسین کا عنعنہ سماع (یا متابعات) پر محلول ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے روایات المدلسین فی صحیح البخاری (تصنیف: ڈاکٹر عمواد حسین الخلف) اور روایات المدلسین فی صحیح مسلم (تصنیف: عود حسین الخلف)
یہ دونوں ضخیم کتابیں دارالبشائر الاسلامیہ بیروت لبنان سے شائع ہوئی ہیں۔
ان دلائل مذکورہ اور آل تقلید کے حوالوں سے ثابت ہوا کہ حافظ ابن حجر العسقلانی کا امام سفیان ثوری کو مدلسین کے طبقۂ ثانیہ میں ذکر کرنا غلط ہے اورصحیح صرف یہ ہے کہ وہ (سفیان ثوری رحمہ اللہ) طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے، جن کی عن والی رایت، غیر صحیحین میں عدم سماع اور معتبر متابعت کے بغیر ضعیف ہوتی ہے۔
ہماری اس بحث سے قطعاً یہ کشید نہ کیا جائے کہ ہم طبقۂ ثالثہ کے علاوہ مدلسین کے عن والی روایات کو حجت سمجھتے ہیں بلکہ مذکورہ دلائل سے ان لوگوں کی غلط فہمی دور کرنا مقصود ہے جو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو طبقۂ ثانیہ کا مدلس کہہ کر ان کی عن والی روایات کو صحیح قرار دینے پر مصر ہیں۔ مزید دلائل اور توضیح آئندہ صفحات پر ملاحظہ فرمائیں۔
بعض لوگ حافظ ابن حجر العسقلانی کی طبقات المدلسین کی طبقاتی تقسیم پر بضد ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ حافظ ابن حجر نے سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ دونوں کو ایک ہی طبقے (طبقۂ ثانیہ) میں اوپر نیچے ذکر کیا ہے۔
سفیان بن عیینہ نے ایک حدیث ’’عن جامع بن ابی راشد عن ابی وائل قال حذیفة…… ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: لا اعتکاف الا فی المساجد الثالثة: المسجد الحرام و مسجد النبی صلی الله علیه وسلم و مسجد بیت المقدس………‘‘ بیان کی ہے، جس کا مفہوم درج ذیل ہے:
رول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین مسجدوں کے علاوہ اعتکاف نہیں ہوتا: مسجد حرام، مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد اقصیٰ: بیت المقدس۔ (دیکھئے شرح مشکل الآثار للطحاوی ۲۰۱/۷ ح۲۷۷۱، السنن الکبریٰ للبیہقی ۳۱۶/۴، سیر العلام النبلاء للذہبی ۸۱/۱۵ وقال الذہبی: ’’صحیح غریب عال‘‘! معجم الاسماعیلی:۳۶۲)
سفیان بن عیینہ سے اسے تین راویوں: محمود بن پدم المروزی، ہشام بن عمار اور محمد بن الفرج نے روایت کیا ہے اور یہ سب صدوق (سچے راوی) تھے۔
جامع بن ابی راشد ثقہ فاضل تھے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: ۸۸۷ وھو من رجال السۃ)
ابو وائل شقیق بن سلمہ ثقہ تھے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: ۲۸۱۶ وھو من رجال الستۃ و من المخضرمین)
یہ روایت سفیان بن عیینہ کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ جو لوگ سفیان بن عیینہ کے عنعنہ کو صحیح سمجھتے ہیں یا حافظ ابن حجر کے طبقۂ ثانیہ میں مذکورین کی معنعن روایات کی حجیت کے قائل ہیں، انھیں چاہئے کہ وہ تین مساجد مذکورہ کے علاوہ ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہونے کا انکار کردیں۔ دیدہ باید!
شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کا تدلیس کے بارے میں عجیب و غریب موقف تھا۔ وہ سفیان ثوری اور اعمش وغیرہما کی معنعن روایات کو صحیح سمجھتے تھے، جبکہ حسن بصری [بقۂ ثانیہ عندابن حجر ۲/۴۰] کی معنعن روایات کو ضعیف قرار دیتے تھے۔
مثلاً دیکھئے ارواء الغلیل (۲۸۸/۲ ح۵۰۵)
بلکہش یخ البانی نے ابو قلابہ (عبداللہ بن زید الجرمی / طبقۂ اولیٰ عند ابن حجر ۱/۱۵) کی معنعن حدیث پر ہاتھ صاف کر لیا۔ علامہ البانی نے کہا:
’’اسناده ضعیف لعنعنة ابی قلابة وهو مذکور بالتدلیس………‘‘
اس کی سند ابو قلابہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے اوروہ (ابو قلابہ) تدلیس کے ساتھ مذکور ہے…… (حاشیہ صحیح ابن خزیمہ ج۳ ص۲۶۸ تحت ح۲۰۴۳)
حافظ ابن حجر نے حسن بن ذکوان (۳/۷۰) قتادہ (۳/۹۲) اور محمد بن عجلان (۳/۸۹) وغیرہم کو طبقۂ ثالثہ میں ذکر کیا ہے جبکہ شیخ البانی ان لوگوں کی احادیث معنعنہ کو حسن یا صحیح کہنے سے ذرا بھی نہیں تھکتے تھے۔ دیکھئے صحیح ابی داود (۳۳/۱ ح۸،سنن ابی داود بتحقیق الالبانی: ۱۱، روایۃ الحسن بن ذکوان) الصحیحۃ (۲۰۲/۴ ح۱۶۴۷، روایۃ قتادہ) اور الصححیہ (۱۰۱/۳ ح۱۱۱۰، روایۃ ابن عجلان)
ملوم ہوا کہ البانی صاحب کسی طبقاتی تقسیم مدلسین کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ اپنی مرضی کے بعض مدلسین کی معنعن روایات کو صحیح اور مرضی کے خلاف بعض مدلسین (یا ابریاء من التدلیس) کی معنعن روایات کو ضعیف قرار دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کا کوئی اصول یا قاعدہ نہیں تھا لہٰذا تدلیس کے مسئلے میں ان کی تحقیقات سے استدلال غلط و مردود ہے۔
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (اہل حدیث) ن ابراہیم نخعی(طبقۂ ثانیہ ۲/۳۵) کی عن والی روایت پر جرح کی اور کہا: اس کی سند میں ابراہیم نخعی مدلس ہیں، حافظ (ابن حجرض نے انھیں طبقات المدلسین میں سفیان ثوری کے طبقے میں ذکر کیا ہے اور انھوں نے اسے اسود سے عن کے ساتھ روایت کیا ہے لہٰذا نیموی کے نزدیک یہ اثر کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟ (ابکار المنن ص۲۱۴ مترجما، دوسرا نسخہ بتحقیق ابن عبدالعظیم ص۴۳۶)
اس سے معلوم ہوا کہ اہل حدیث علماء کے نزدیک بھی یہ طبقاتی تقسیم قطعی اور ضروری نہیں ہے بلکہ دلائل کے ساتھ اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
عینی، کرمانی، قسطلانی اور نووی وغیرہم کے حوالے گزر چکے ہیں کہ وہ حافظ ابن حجر کے طبقۂ ثانیہ کے مدلسین کی معنعن روایات پر بھی جرح کرتے تھے لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ لوگ حافظ ابن حجر العسقلانی کی طبقاتی تقسیم کے قائل نہیں تھے، ورنہ ایسا کبھی نہ کرتے۔
نیموی تقلیدی نے سعید بن ابی عروبہ (طبقہ ثانیہ ۲/۵۰) کو کثیر التدلیس قرار دے کر کہا کہ اس نے یہ روایت عن سے بیان کی ہے۔ (دیکھئے آثر السنن کا حاشیہ ص۱۸۶ تحت ح۵۵۰)
سرفراز خان صفدر تقلیدی دیوبندی کڑمنگی نے ابو قلابہ (طبقہ اولیٰ ۱/۱۵) کو غضب کا مدلس قرار دے کر ان کی معنعن روایت پر جرح کی ہے۔
دیکھئے احسن الکلام (طبقع دوم ج۲ ص۱۱۱، دوسرا نسخہ ج۲ ص۱۲۷)
محمد شریف کوٹلوی بریلوی، عباس رضوی بریلوی اور امین اوکاڑوی دیوبندی وغیرہم کے حوالے اس مضمون میں گزر چکے ہیں۔
ثابت ہوا کہ آلِ تقلید بھی یہ طبقاتی تقسیم صحیح تسلیم نہیں کرتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جب فائدہ اور مرضی ہو تو بعض لوگ طبقات المدلسین کے طبقات سے استدلال بھی کر لیتے ہیں اور اگر مرضی کے خلاف ہو تو ان طبقات کو پس پشت پھینک دیتے ہیں۔
امام شافعی نے یہ اصول سمجھایا ہے کہ جو شخص صرف ایک دفعہ بھی تدلیس کرے تو اس کی وہ روایت مقبول نہیں ہوتی جس میں سماع کی تصریح نہ ہو۔ صدیکھئے الرسالہ ص۳۷۹، ۳۸۰)
بقی ائمہ ثلاثہ (مالک، احمد اور ابو حنیفہ) سے اس اصول کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہے لہٰذا جو لوگ ائمہ اربعہ اور چار مذاہب کے ہی برحق ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، غور کریں کہ تدلیس کے مسئلے میں ائمہ اربعہ کو چھوڑ کر وہ کس راستے پر جا رہے ہیں؟
امام سفیان ثوری کی تدلیس کے سلسلے میں بعض الناس کچھ اعتراضات اور شبہات بھی پیش کرتے رہتے ہیں، ان کے مسکت اور دندان شکن جوابات درج ذیل ہیں:
۱: اگر کئوی کہے کہ ’’آپ حافظ ابن حجر وغیرہ کی طبقات المدلسین کی طبقاتی تتقسیم سے متفق نہیں ہیں، جیسا کہ آپ نے ماہنامہ الحدیث: ۳۳ (ص۵۵) وغیرہ میں لکھا ہے اور دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ سفیان ثوری اور اعمش کو طبقۂ ثانیہ میں ذکر کرنا غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ دونوں طبقۂ ثالثہ کے مدلسین میں سے تھے۔ کیا یہ اضطراب نہیں ہے‘‘؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک، جن راویوں پر تدلیس کا الزام ہے، ان کے صرف دو طبقے ہیں:
وہ جن پر تدلیس کا الزام باطل ہے اور تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ مدلس نہیں تھے مثلاً امام ابو قلابہ اور امام بخاری وغیرہما۔ [ایسے راویوں کی معنعن روایت صحیح ہوتی ہے۔]
وہ جن پر تدلیس کا الزام صحیح ہے اور ان کا تدلیس کرنا ثابت ہے مثلاً قتادہ، سفیان ثوری، اعمش اور ابن جریج وغیرہم۔
ایسے راویوں کی ہر معنعن روایت (صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں) عدم متابعت اور عدم شواہد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے، چاہے انھیں حافظ ابنحجر وغیرہ کے طبقۂ اولیٰ میں ذکر کیا گیا ہو یا طبقہ ثانیہ میں۔
یہ تو ہوئی ہماری اصل تحقیق اور دوسری طرف جب میں نے کسی راوی مثلاً امام سفیان ثوری اور اعمش وغیرہما کو طبقۂ ثالثہ میں ذکر کیا ہے تو یہ صراحت ان لوگوں کے لئے بطورِ الزام کی گئی ہے جو مروجہ طبقاتی تقسیم پر کلیتا یقین رکھتے ہیں، بلکہ اس تقسیم کا اندھا دھند دفاع بھی کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس صراحت کا یہ مقصد ہے کہ اگر آپ مروجہ طبقاتی تقسیم کو قطعی اور یقینی سمجھتے ہیں تو پھر سن لیں! کہ یہ راوی طبقۂ اولیٰ یا ثانیہ میں سے نہیں بلکہ طبقۂ ثالثہ میں سے ہیں اور یہی راجح ہے لہٰذا یہ اضطراب نہیں بلکہ ایک ہی بات ہے جسے دو عبارتوں میں بیان کر دیا گیا ہے۔
۲: اگر کوئی کہکے کہ آپ نے کئی سال پہلے خود ایک دفعہ سفیان ثوری کو طبقۂ ثانیہ میں لکھ دیا تھا۔ (دیکھئے کتاب: جرابوں پر مسح ص۴۰ میں آپ کا خط نوشتہ ۱۴۰۸/۸/۱۹ھ)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ کافی عرصہ پہلے میں یہ اعلان بھی شائع کرا چکا ہوں کہ
’’میری یہ بات غلط ہے، میں اس سے رجوع کرتا ہوں لہٰذا اسے منسوخ و کالعدم سمجھا جائے۔‘‘ (ماہنامہ شہادت اسلام آباد مطبوعہ اپریل ۲۰۰۳ء، جزرفع الیدین ص۲۶)
لہٰذا منسوخ اور رجوع شدہ بات کا اعتراض باطل ہے۔ نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث: ۴۲ ص۲۸ (واللفظ لہ)
۳: اگر کوئی کہے کہ ’’آپ نے صرف حاکم نیشاپوری پر اعتماد کرکے سفیان ثوری کو طبقۂ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات غلط ہے، بلکہ میں نے متعدد دلائل (مثلاً ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے) کی رو سے سفیان ثوری کو طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے اور ان میں سے بیس سے زیادہ دلائل تو اسی مضمون میں موجود ہیں، جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
سی طرح حافظ ابن حبان، عینی حنفی اور ابن الترکمانی حنفی وغیرہم کے نزدیک سفیان ثوری طبقۂ ثالثہ میں سے تھے، جیسا کہ اس مضمون مں باحوالہ ثابت کر دیا گیا ہے۔
اگر کسی محدث کا کوئی قول بطورِ تتائید پیش کیا جائے تو بعض چالاک قسم کے لوگ اس محدث کے دوسرے اقوال پیش کرکے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ ان اقوال کو کیوں نہیں مانتے؟
عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات ہمیشہ واجب التسلیم اور حق ہے لیکن آپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ اس کی ہر بات ہمیشہ واجب التسلیم اور حق ہو بلک دلائل کے ساتھ اس امتی شخص سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا جرم نہیں ہے لہٰذا حاکم نیشاپوری وغیرہ کو دوسرے مقامات پر اگر غلطیاںلگی ہوں تو ان سے اختلاف کرنا ہر صاحبِ فہم مسلمان کا حق ہے۔
۴: اگر کوئی کہے کہ حاکم وغیرہ نے سفیان ثوری کی بہت سی روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے۔
مثلاً دیکھئے فیصل خان نامی شخص کی کتاب: رفع یدین ک موضوع پر نور العینین کا محققانہ تجزیہ‘‘ (ص۴۱، ۴۲)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تصحیح مقرر شدہ قاعدے سے اور اصول حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط یا تساہل پر مبنی ہے۔
یاد رہے کہ حاکم وغیرہ پر متساہل ہونے کا بھی الزام ہے۔ مثلاً دیکھئے حافظ ذہبی کا رسالہ: ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح و التعدیل اور دیگر کتب
۵: اگر کوئی کہے کہ آپ نے امام شافعی رحمہ اللہ پر تدلیس کے مسئلے میں اعتماد کیا ہے، حالانکہ ان کا قول جمہور کے خلاف ہے۔!
تو جوابا عرض ہے کہ امامش افعی کا یہ فیصلہ کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف اور غیر مقبول ہوتی ہے، جمہور کے خلاف نہیں بلکہ جمہور محدثین کے موافق ہے جس پر ہمارا یہ مضمون بھی گواہ ہے اور اس میں بیس سے زیادہ حوالے صرف سفیان ثوری کے بارے میں پیش کئے گئے ہیں اور اصولِ حدیث کی کتابیں بھی اسی کی موید ہیں، علمائے تحقیق و تخریج اور اخلافی مسائل پر لکھنے والوں کی تحریروں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔
۶: اگر کوئی کہے کہ امام شافعی نے خود اپنی کتابوں میں مدلسین مثلاً سفیان بن عیینہ اور سفیان ثوری سے معنعن روایتیں لی ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مجرور روایت لینا یا بیان کرنا تصحیح نہیں ہوتی لہٰذا جو شخص اسے تصحیح سمجھ بیٹھا ہے تو وہ اپنی اصلاح کرلے۔
بطورِ فائدہ عرض ہے کہ سفیان بن عیینہ سے امام شافعی کی تمام روایات سماع پر محمول ہیں۔
دیکھئے النکت للزرکشی (ص۱۸۹) اور الفتح المبین (ص۴۲)
سفیان ثوری سے امام شافعی کی معنعن روایات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امام شافعی ان روایات کو صحیح سمجھتے تھے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ کتاب الام وغیرہ سے امام شافعی کہ وہ روایت مع مکمل سند و متن پیش کریں، جس میں سفیان ثوری کا تفرد ہے، روایت معنعن ہے اورامام شافعی نے اسے سندہ صحیح یا سندہ حسن فرمایا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ اعتراض باطل ہے۔
۷: اگر کوئی کہے کہ سفیان ثوریکی بہت سی روایات کتب حدیث میں عن کے ساتھ موجود ہیں مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، سنن ابی داود، سنن ترمذی، مسند احمد اور مسند ابی یعلیٰ وغیرہ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ کتب حدیث کے تین طبقات ہیں:
اول: صحیح بخاری اور صحیح مسلم
ان دونوں کتابوں کو امت کی تلقی بالقبول حاصل ہے لہٰذا ان دو کتابوں میں مدلسین کی روایات سماع، متابعات اور شواہد معتبرہ کی وجہ سے صحیح ہیں۔
دوم: صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان وغیرہما
ان کتابوں کو تلقی بالقبول حاصل نہیں لہٰذا ان کے ساتھ اختلاف کیا جا سکتا ہے مثلاً صحیح ابن خزیمہ میں سینے پر ہاتھ باندھنے والے روایت صرف سفیان ثوری کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے اور مومل بن اسماعیل پر جمہور محدثین بشمول امام یحییٰ بن معین کی توثیق کے بعد اعتراض مردود ہے۔ دیکھئے ممیرا مضمون: اثبات التعدیل فی توثیق مومل بن اسماعیل (علمی مقالات ج۱ ص۴۱۷۔۴۲۷)
سوم: سنن ابی داود، سنن ترمذی، مسند ابی یعلیٰ اور مسند احمد وغیرہ
ان کتابوں کے مصنفین نے اپنی کتابوں کے بارے میں صحیح ہونے کا دعویٰ نہیں کیا لہٰذا ان کتابوں میں مجرو روایت کی بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ صاحب کتاب نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
انھی کتابوں میں اہل حدیث کی مستدل بہت سی روایات موجود ہیں، تو کیا وہ شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ تمام روایتیں ان کتابوں کے مصنفین کے نزدیک صحیح ہیں؟
۸: بعض الناس نے امام شافعی اور جمہور محدثین کے خلاف یہ قاعدہ بنایا ہے کہ اگر راوی کثیر التدلیس ہو تو اس کی معنعن روایت ضعیف ہوگی اور اگر قلیل التدلیس ہو تو اس کی روایت صحیح ہوگی۔
عرض ہے کہ یہ قاعدہ غلط ہے، جیسا کہ اس مضمون کے بیس سے زیادہ حوالوں سے ثابت ہے۔
امام ابن المدینی کا قول کہ لوگ سفیان ثوری کی روایتوں میں یحییٰ بن سعید القطان کے محتاج ہیں، اس کی واضح دلیل ہے کہ سفیان ثوری کثیر التدلیس تھے، ورنہ لوگوں کا محتاج ہونا کیسا ہے؟ غالباً یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے عالم مسفر بن غرم اللہ الدمینی نے لکھا ہے: ’’وتدلیسہ کثیر‘‘ اور سفیان ثوری کی تدلیس بہت زیادہ ہے۔ (التدلیس فی الحدیث ص:۲۶۶)
مسفر مذکور کا اہل حدیث یا یر مقلد ہونا صراحتاً ثابت نہیں ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کا کیا مسلک ہے؟
اوبزرعہ ابن العراقی نے کہا: ’’مشھور بالتدلیس‘‘ یعنی سفیان ثوری تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں۔ (کتاب المدلسین: ۲۱)
۹: اگر کوئی کہے کہ حافظ العلائی وغیرہ نے سفیان ثوری کو طبقۂ ثانیہ میں لکھا ہے، جن کی تدلیس کو اماموں نے محتمل (قابل برداشت) قرار دیا ہے۔ (دیکھئے جامع التحصیل ۱۱۳)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ العلائی نے زہری (۳/۱۰۲) حمید الطویل (۳/۷۱) ابن جریج (۳/۸۳) اور ہشیم بن بشیر (۳/۱۱۱) کو بھی اسی طبقۂ ثانیہ میں ثوری کے ساتھ ذکر کیا ہے، حالانکہ ان سب کو حافظ ابن حجر نے طبقۂ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ سے ابن جریج کی تدلیس (معنعن روایت) کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:
’’یتجنب تدلیسه فانه وحش التدلیس، ولا یدلس الا فیما سمعه من مجروح……‘‘ ان کی تدلیس (عن والی روایت) سے اجتناب کرنا (یعنی سختی سے بچنا) چاہئے کیونکہ ان کی تدلیس وحشت ناک ہے، وہ صرف مجروح سے ہی تدلیس کرتے تھے…… (سوالات الحاکم للدارقطنی: ۲۶۵)
امام احمد بن صالح المصری نے فرمایا کہ اگر ابن جریج سماع کی تصریح نہ کریں تو اس (روایت) کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ (تاریخ عثمان بن سعید الدارمی: ۱۰)
ہشیم بن بشیر کے بارے میں ابن سعد نے کہا: ’’………وما لم یقل فیه اخبرنا فلیس بشی‘‘ جس میں وہ سماع کی تصریح نہ کریں تو وہ کچھ چیز نہیں ہے۔ (طبقات ابن سعد ۳۱۳/۷)
معلوم ہوا کہ جس طرح ابن جریج اور ہشیم کو طبقۂ ثانیہ میں ذکر کرنا غلط ہے، اسی طرح سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ اور اعمش کو بھی طبقۂ ثانیہ میں ذکر کرنا غلط ہے۔
۱۰: اگر کوئی کہے کہ آپ کی کتاب: نور العینین کے رد میں ایک کتاب: ’’محققانہ تجزیہ‘‘ لکھی گئی ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کتاب میں صاحب کتاب نے ترکِ رفع یدین والی روایت میں سفیان ثوری کے سماع کی تصریح پیش نہیں کی اور نہ معتبر متابعت ثابت کی ہے۔ اس کتاب میں سفیان ثوری کی تدلیس (معنعن روایت) کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، جو کہ ہمارے اس تحقیقی مضمون کی رو سے باطل ہے۔
اس شخص نے حدیث کی کتابوں میں سفیان ثوری کی بہت سی معنعن مرویات پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ محدثین کرام سفیان ثوری کی معنعن روایات کو حجت سمجھتے تھے، حالانکہ یہ تاثر باطل ہے اور اس طرح کی مرویات کتب احادیث سے ہر مدلس راوی کی پیش کی جا سکتی ہیں، جنھیں نہ بریلوی حضرات تسلیم کرتے، نہ دیوبندی اور نہ حنفی حضرات ہی تسلیم کرتے ہیں۔ ایسا طریقۂ کار کبھی اختیار نہیں کرنا چاہئے، جس کی وجہ سے تمام مدلسین کی تمام معنعن روایات صحیح قرار دی جائیں اور علم تدلیس فضول ہو جائے۔
بعض نے امام دارقطنی کی کتاب العلل (۱۷۱/۵، ۱۷۳ رقم ۸۰۴) سے ابوبکر النہشلی اور عبداللہ بنادریس کی متابعات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ یہ حوالہ بالکل بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور دنیا کی کسی کتاب میں صحیح یا حسن لذاتہ سند کے ساتھ ابوبکر النہشلی یا عبداللہ بن ادریس کی روایت مذکورہ میںلفظی یا معنوی (مفہوما) متابعت ثابت نہیں ہے۔
بعض الناس نے لکھا ہے:
’’امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’حدث بہ الثوری عنہ‘‘ کے لفظ لکھے۔ جس سے امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے صیغہ تحدیث ثابت ہوتے ہیں……‘‘ (محققانہ تجزیہ ص۹۲)
یہ استدلال دو وجہ سے مردود ہے:
۱: امام دارقطنی کی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے امام سفیان ثوری فوت ہوگئے تھے لہٰذا یہ قول بے سند ہے۔
۲: حدث بہ الثوری عنہ کا مطلب یہ ہے کہ ثوری نے اس سے حدیث بیان کی ہے لہٰذا اس سے ماع کیسے ثابت ہوگیا؟ اس میں سماع کی تصریح ہی نہیں لیکن بعض الناس ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ!
ایک شخص نے امام سفیان ثوری کی معنعن حدیث کے دس (۱۰) شواہد بنانے کی کوشش کی ہے جن میں نمبر ۱ سے نمبر ۹ تک سب موقوف و مقطوع روایات اور ضعیف و مردود ہیں۔ ابراہیم نخعی مدلس تھے لہٰذا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے (جو ان کی پیدائش سے پہلے وفات پاگئے تھے) ان کی ہر روایت مردود ہے، چاہے انھوں نے ایک جماعت (مجہولین) سے ہی سنا ہو۔
عبدالرزاق، حماد بن ابی سلیمان، ابن عیینہ، سفیان ثوری اور ابراہیم نخعی سب مدلس تھے لہٰذا اُن کی معنعن روایات مردود کے حکم میں ہیں۔ آخری روایت میں محمد بن جابر جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف تھا۔ حماد اور ابراہیم دونوں مدلس تھے اور روایت معنعن ہے۔ مختصر یہ کہ یہ تمامشواہد مردود ہیں اور بات سفیان ثوری کی تدلیس میں ہی پھنسی ہوئی ہے۔
اب آخر میں صاحبِ محققانہ تجزیہ (فیصل خان بریلوی) کے پانچ جھوٹ باحوالہ اور ان کا ردپیشِ خدمت ہیں:
۱: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت مذکورہ کے بارے میں فیصل مذکور نے طحاوی حنفی کی کتاب شرح معانی الآثار (۱۵۴/۱، ۲۲۴/۱) سے تصحیح نقل کی ہے۔ (محققانہ تجزیہ ص۱۲۲) حالانکہ طحاوی نے اس روایت کو صراحتاً صحیح نہیں کہا لہٰذا یہ طحاوی پر جھوٹ ہے۔
۲: روایت مذکورہ کے بارے میں اس شخص نے حافظ ابن حجر کی کتاب الدرایہ (۱۵۰/۱) سے نقل کیا: ’’صحیح‘‘ (محققانہ تجزیہ ص۱۲۳)
اور یہ کالا جھوٹ ہے۔
۳: روایت مذکورہ کے بارے میں اس نے مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کی تعلیقاتِ سلفیہ (۱۲۳) سے نقل کیا: ’’صحیح‘‘ (محققانہ تجزیہ ص۱۲۵)
مولانا عطاء اللہ نے اس حدیث کو قطعاً صحیح نہیں کہا بلکہ ابوالحسن سندھی کا حاشیہ نقل کرکے س کا حرف لکھ دیا ہے۔ (دیکھئے تعلیقات سلفیہ ص۱۲۳، حاشیہ ۴) لہٰذا عبارت مذکورہ میں صاحبِ تجزیہ نے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ پر جھوٹ بولا ہے۔
۴: صاحبِ محققانہ تجزیہ نے کہا:
’’کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بعد والا قول بھی یہی ہے کہ ان دونوں حضرات سے (حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) ترک رفع یدین ثابت ہے۔‘‘ (محققانہ تجزیہ ص۱۰۷) یہ بھی بالکل کالا جھوٹ ہے۔
۵: صاحبِ تجزیہ نے کہا: ’’زبیر علیزئی صاحب امام بزار رحمۃ اللہ علیہ پر جرح کرتے ہیں اور ان کی توثیق کے قائل نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کا قول کیسے پیش کرسکتے ہیں۔‘‘ (محققانہ تجزیہ ص۱۱۵)
یہ جھوٹ ہے کیونکہ میرے نزدیک امام بزار ثقہ یخطی اور صدوق حسن الحدیث ہیں اور متعدد مقامات پر میں نے ان کی بیان کردہ احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
مثلاً دیکھئے علمی مقالات (ج۱ ص۱۱۲)
ماہنامہ الحدیث (۲۳ ص۳۰) میں بھی خطیب بغدادی اور ابو عوانہ وغیرہما سے محدث بزار کا ثقہ و صدوق ہونا نقل کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ اس شخص کے اور بھی بہت سے جھوٹ ہیں مثلاً مسند احمد میں مجرور روایت کی وجہ سے امام احمد بن حنبل سے ’’احتج بہ‘‘ نقل کرنا، وغیرہ دیکھئے محققانہ تجزیہ (ص۱۲۲)
اس شخص کی جہالتیں بھی بہت زیادہ ہیں مثلاً:
’’حدث بہ الثوری عنہ‘‘ کو سماع پر محمول کرنا۔ (تجزیہ ص۹۲)
اور یہ کہنا کہ ’’ویسے بھی ثم لایعود کے بغیر بھی احناف کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔‘‘ (تجزیہ ص۱۱۹)
حالانکہ اس ضعیف روایت میں ’’ثم لایعود‘‘ اور اس کے مفہوم کی زیادت جب باطل ثابت ہوگئی ہے تو بریلویوں دیوبندیوں کا دعویٰ اور اس کی بنیاد ہی ختم ہوگئی ہے، ساری عمارت دھڑام سے زمین بوس ہوگئی ہے، جس سے ’’بھٹہ‘‘ ہی بیٹھ گیا ہے۔
ہمارے اس مدلل اور تحقیقی مضمون میں ثابت کر دیا گیا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ترک رفع یدین والی روایت میں سفیان ثوری مدلس ہیں جو طبقۂ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا ان کی یہ معنعن روایت ضعیف و مردود ہے۔
دنیا کی کسی کتاب میں روایت مذکورہ میں امام سفیان ثوری کے سماع کی تصریح موجود نہیں اور نہ کوئی معتبر متابعت ہی کہیں موجود ہے۔
اہل ایمان کو چاہئے کہ ضد و عناد کو چھوڑ کر حق کو تسلیم کریں کیونکہ اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب