سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123) بے سند جرح و تعدیل اور اوکاڑوی کلچر

  • 13644
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2617

سوال

(123) بے سند جرح و تعدیل اور اوکاڑوی کلچر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امین اوکاڑوی لکھتے ہیں:

’’آج کل راویوں کے حلاتا کا دار ومدار تقریب التہذیب، تہذیب التہذیب، خلاصۃ التہذیب، تذکرۃ الحفاظ، میزان الاعتدال وغیرہ کی کتابوں پر ہے اور یہ سب کتابیں بے سند ہیں۔ آٹھویں صدی کا آدمی پہلی صدی کے آدمی کو ثقہ اور ضعیف کہہ رہا ہے اور درمیان میں سات سو سال کی کوئی سند نہیں کیا ان کتابوں کا بھی انکار کر دو گے؟‘‘ (مجموعہ رسائل جدید ایڈیشن ۴۴۷/۲، ادارہخدام احناف لاہور)

سوال یہ ہے کہ کیا یہ کتابیں بے سند ہیں اور آٹھویں صدی کے آدمی پہلے صدی کے آدمی پر بغیر کسی سند کے جرح کرتے ہیں؟ وضاحت فرمائیں۔ اللہ آپ کی زندگی میں برکت دے۔ آمین


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ مشہور و متواتر اور ثابت شدہ کتابوں میں بعض اقوال بے سند ہیں اور بعض اقوال باسند ہیں۔ باسند اقوال کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

۱:             احمد بن خلیل بن حرب القومسی کے بارے میں حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:

’’نسبہ ابو حاتم الی الکذب‘‘ ابو حاتم نے اسے کذب (جھوٹ) کی طرف منسوب کیا ہے۔ (تقریب التہذیب:۳۴)

حافظ ابن حجر کی پیدائش سے صدیوں پہلے امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا:

’’احمد بن خلیل القومسی کذاب‘‘ (الجرح والتعدیل ج۲ ص۵۰ ت۴۹)

۲:            تہذیب التہذیب کے پہلے راوی احمد بن ابراہیم بن خالد الموصلی کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’وقال ابراهیم بن الجنید عن ابن معین: ثقة صدوق‘‘ (ج۱ ص۹)

حافظ ابن حجر کی ولادت سے صدیوں پہلے والی کتاب سوالات ابن الجنید میں لکھا ہوا ہے کہ یحییٰ بن معین سے حارث النقال اور احمد بن ابراہیم الموصلی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: ’’تقتین صدوقین‘‘ دونوں ثقہ صدوق ہیں۔ (سوالات ابن الجنید:۱۱۴)

۳:            خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال للخزرجی کے پہلے راوی احمد بن ابراہیم بن خالد الموصلی کے بارے میں خزرجی (متوفی ۹۲۳ھ) نے امام یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’لیس بہ باس‘‘ یہ قول بعینہٖ کتاب الجرح و التعدیل میں امام یحییٰ بن معین سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ (ج۲ ص۳۹ ت۱)

۴:            حافظ ذہبی کی کتاب تذکرۃ الحفاظ کے شروع میں انھوں نے ایک روایت لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے احادیث کا ایک مجموعہ لکھا تھا جسے بعد میں انھوں نے جلا دیا تھا۔ (ج۱ ص۵ت۱)

یہ روایت حافظ ذہبی نے حاکم نیشاپوری سے مکمل سندومتین کے ساتھ نقل کرکے لکھا ہے:

’’فھذا لا یصح‘‘ پس یہ صحیح نہیں ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ ج۱ ص۵)

تنبیہ:

محمد زکریا تبلیغی دیوبندی نے اپنی کتاب حکایاتِ صحابہ میں یہی روایت حافظ ذہبی کی جرح ذکر کئے بغیر نقل کر رکھی ہے۔ (ص۹۸، آٹھواں باب) !

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تو سند نقل کرکے جرح کر رکھی ہے اور زکریا صاحب اسے جرح کے ذکر کے بغید ہی اردو عوام کے سامنے پیش کر رہےہیں۔!

۵:            حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال کے پہلے راوی ابان بن اسحاق المدنی کے بارے میں ابو الفتح الازدی (مجروح) کی جرح نقل کرکے اسے رد کر دیا اور کہا: اسے عجلی نے ثقہ کہا ہے۔ (ج۱ ص۵ت۱)

احمد العجلی رحمہ اللہ کا قول ’’ثقۃ‘‘ تاریخ العجلی میں مذکور ہے۔ (ص۵۰ ت۱۲)

تنبیہ:

میزان الاعتدال میں غلطی کی وجہ سے ’’وثقہ احمد والعجلی‘‘ چھپ گیا ہے جب کہ صحیح ’’وثقہ احمد العجلی‘‘ ہے۔ (نیز دیکھئے حاشیہ تہذیب الکمال، تحقیق بشار عواد معروف ج۲ ص۶)

معلوم ہوا کہ اوکاڑوی صاحب کا یہ کہنا ’’اور سب کتابیں بے سند ہیں‘‘ غلط اور مردود ہے۔

تنبیہ بلیغ:

ان مذکورہ کتابوں اور دوسری کتابوں م یں جو اقوال و افعال مروی ہیں ان کی تحقیق کرنے کے بعد ہی انھیں بطورِ حجت پیش کرنا چاہئے۔ ثابت شدہ گواہیوں کو جمع کرکے جمہور قابل اعتماد محدثین کی تحقیق کو ہی ترجیح دینی چاہئے۔

بعض اوقات کسی راوی پر ان کتابوں میں جرح تو منقول ہوتی ہے لیکن اپنے قائل سے باسند صحیح ثابت نہیں ہوتی مثلاً مومل بن اسماعیل پر تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال میں امام بخاری کی جرح ’’منکر الحدیث‘‘ مروی ہے حالانکہ یہ جرح امام بخاری سے ثابت ہی نہیں ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث: ۲۱ ص۱۹ و اثبات التعدیل فی توثیق مومل بن اسماعیل، اقوالِ جرح: ۶

انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ امین اوکاڑوی کلچر والے لوگ دن رات یہ بے سند جرح مومل بن اسماعیل پر فٹ کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں: ’’اور یہ سب کتابیں بے سند ہیں‘‘!!

ان لوگوں کی یہ حرکت ظلم عظیم نہیں تو کیا ہے؟

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص309

محدث فتویٰ

تبصرے