سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) کیا فتح الباری میں حافظ ابن حجر کا سکوت حجت ہے؟

  • 13643
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2318

سوال

(122) کیا فتح الباری میں حافظ ابن حجر کا سکوت حجت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا حافظ ابن حجر العسقلانی کا فتح الباری میں کسی حدیث یا روایت پر سکوت کرنا (جرح نہ کرنا) اس بات کی دلیل ہے کہ وہ روایت صحیح یا حسن یعنی حجت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ظفر احمد تھانوی دیوبندی کے نزدیک حافظ ابن حجر کا فتح الباری  میں کسی روایت پر سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ روایت حافظ ابن حجر کے نزدیک صحیح یا حسن ہے۔ دیکھئے اعلاء السنن (ج۱۹ ص۸۹)

ایک روایت کے بارے میں شوکانی یمنی نے کہا: اسے حافظ نے الفتح میں ذکر کیا اور اس پر کلام نہیں کیا۔

یہ قول ذکر کرنے کے بعد ظفر احمد نے کہا: ’’وفیه دلیل علی ان سکوت الحافظ فی الفتح عن حدیث حجة و دلیل علی صحته او حسنه، و اللہ اعلم‘‘

اور اس میں دلیل ہے کہ حافظ کا الفتح (فتح الباری) میں کسی حدیث پر سکوت کرنا حجت ہے اور اس حدیث کے صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے۔ (العلاء السنن ج۱۹ ص۹۰، ترجمہ از ناقل)

آلِ دیوبند کا یہ اصول راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’تعدادِ رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ‘‘ میں بطورِ الزام پیش کیا ہے۔ دیکھئے ص۲۰

تحقیق یہ ہے کہ فتح الباری (اور التلخیص الجبیر) میں حافظ ابن حجر کا سکوت حدیث کے حسن یا صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے جن احادیث و روایات پر فتح الباری میں سکوت کیا ہے، ان میں ضعیف اور ضعیف جدا بلکہ موضوع روایات بھی ہیں۔ تحقیق کے لئے دیکھئے انیس الساری فی تخریج و تحقیق الاحادیث التی ذکرھا الحافظ ابن حجر العسقلانی فی فتح الباری۔

فی الحال موضوع روایات کی چار مثالیں پیش خدمت ہیں، جن پر حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں سکوت کیا ہے۔

مثال اول:

حافظ ابن حجر العسقلانی نے کہا:

’’وفیه حدیث عند الطبرانی و ابی الشیخ عن انس رفعه: یعق عنه من الابل و البقر و الغنم‘‘ اور اس (مسئلے یا باب) میں طبرانی اور ابو الشیخ کی (سیدنا) انس (رضی اللہ عنہ) سے مرفوع حدیث ہے کہ اس (نومولد) کی طرف سے اونٹوں، گائیوں اور بکریوں میں سے عقیقہ کرنا چاہئے۔ (فتح الباری ۵۹۳/۹ تحت ح۵۴۷۲)

یہ روایت المعجم الصغیر للطبرانی (ج۱ ص۸۴ ح۲۱۷ بترقیمی) میں مسعدہ بن الیسع کی سند سے مذکور ہے۔ (انیس الساری ج۹ ص۶۷۳۱ ح۴۷۴۰ وقال صاحب الکتاب: ’’موضوع‘‘ مجمع الزوائد ۵۸/۴ وقال الہیثمی: فیہ مسعدۃ بن الیسع وو کذاب)

اس کے راوی مسعدہ بن الیسع کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا:

’’هو ذاهب منکر الحدیث لا یشتغل به، یکذب علی جعفر بن محمد عندی واللہ اعلم‘‘ وہ گیا گزرا ہے، منکر حدیثیں بیان کرنے والا، اس (کی روایتوں) کے ساتھ مشغول نہیں ہونا چاہئے، وہ میرے نزدیک جعفر بن محمد (الصادق رحمہ اللہ) پر جھوٹ بولتا تھا۔ (کتاب الجرح و التعدیل ۳۷۱/۸)

نیز دیکھئے لسان المیزان (۲۳/۶)

مثال دوم:

حافظ ابن حجر نے کہا:

’’وقد اخرج ابو داود من حدیث ابی العشراء عن ابیه ان النبی صلی الله علیه وسلم سئل عن العتیرة فحسنها‘‘ اور ابوداود نے ابو العشراء عن ابیہ کی حدیث سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عتیرہ (زمانۂ جاہلیت میں معبودوں کے نام پر ذبح کئے جانے والے جانور) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اسے اچھا قرار دیا یعنی پسند کیا۔! (فتح الباری ۵۹۸/۹ تحت ح ۵۴۷۴)

یہ روایت امام ابوداود کی مشہور کتاب السنن میں نہیں، بلکہ کسی دوسری کتاب میں عبدالرحمن بن قیس عن حماد بن سلمۃ عن ابی العشراء الدارمی عن ابیہ کی سند سے مذکور ہے۔

دیکھئے تہذیب التہذیب (۱۶۶/۱۲۔ ۱۶۷، دوسرا نسخہ ۱۸۶/۱۲، ترجمۃ ابی العشراء) تہذیب الکمال للمزی (۳۷۱/۸) اور انیس الساری (۱۱۸۴/۲ ح۸۴۳ وقال: موضوع)

اس کا راوی ابو معاویہ عبدالرحمن بن قیس الضبی البصری کذاب (جھوٹا راوی) تھا۔ اس کے بارے میں امام ابوزرعہ الرازی نے فرمایا: ’’وکان کذابا‘‘ اور وہ جھوٹا تھا۔ (کتاب الجرح و التعدیل ۲۷۸/۵)

خود حافظ ابن حجر نے کہا: ’’متروک کذبہ ابو زرعہ وغیرہ‘‘ وہ متروک ہے، اسے ابوزرعہ وغیرہ نے کذاب کہا ہے۔ (تقریب التہذیب: ۳۹۸۹)

مثال سوم:

حافظ ابن حجر نے کہا:

’’وروی البیهقی ان یهودیا سمع النبی صلی الله علیه وسلم یقرا سورة یوسف فجاء و معه نفر من الیهود فاسلموا کلهم‘‘ اور بیہقی نے روایت کیا کہ ایک یہودی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سورت یوسف پڑھتے ہوئے سنا، پھر وہ اپنے ساتھ دوسرے یہودیوں کو لے کر آیا تو وہ سارے کے سارے مسلمان ہوگئے۔ (فتح الباری ج۷ ص۲۷گ تحت ۳۹۴۱، انیس الساری ۹۸۴/۱۰ وقال: موضوع)

یہ روایت دلائل النبوۃ للبیہقی (۲۷۶/۶) میں محمد بن مروان السدی الصغیر عن الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس کی سند سے موجود ہے۔

محمد بن مروان السدی کذاب راوی ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمار ۲۴ ص۵۰۔۵۲ )

ابن نمیر نے کہا: وہ (محمد بن مروان السدی) کذاب ہے۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلی ۱۳۶/۴، و سندہ حسن، دوسرا نسخہ ج۴ ص۱۲۸۹۔ ۱۲۹۰)

خود حافظ ابن حجر نے کہا: ’’متھم بالکذب‘‘ (تقریب التہذیب: ۶۲۸۴)

سدی صغیر کا استاد محمد بن السائب الکلبی کذاب تھا۔ (الحدیث حضرو: ۲۴ ص۵۳۔۵۴)

سلیمان التیمی نے کہا: کوفہ میں دو کذاب تھے، ان میں سےایک کلبی ہے۔ (کتاب الجرح و التعدیل ۲۷۰/۷ و سندہ صحیح)

خود حافظ ابن حجر نے اسے ’’المفسر منهم بالکذب و رمی بالرفض‘‘ قرار دیا۔

دیکھئے تقریب التہذیب (۵۹۰۱)

حاکم نیشاپوری نے کلبی کے بارے میں کہا: ’’احادیثہ عن ابی صالح موضوعۃ‘‘ اس کی ابو صالح سے حدیثیں موضوع ہیں۔ (المدخل الی الصحیح ص۱۹۵ ت۱۷۱)

خلاصہ یہ کہ یہ سند موضوع ہے۔

مثال چہارم:

حافظ ابن حجر نے کہا:

’’ومن حدیث بریدہ رفعہ: اللهم اجعل صلواتک و رحمتک و برکاتک علی محمد و علی آل محمد کما جعلتها علی ابراهیم و علی آل ابراهیم و اصله عند احمد‘‘ اور (ابو العباس السراج نے روایت کیا) بریدہ (رضی اللہ عنہ) کی مرفوع حدیث سے کہ ’’اللهم اجعل صلواتک و رحمتک و برکاتک علی محمد و علی آل محمد کما جعلتها علی ابراهیم و علی آل ابراهیم‘‘ اور اس کی اصل احمد کے پاس (یعنی مسند احمد میں) ہے۔ (فتح الباری ۱۵۹/۱۱ تحت ح۶۳۵۷، ۶۳۵۸، اور انیس الساری ج۱ ص۸۳۸ ح۵۶۷)

مسند احمد (۳۵۳/۵) وغیرہ کی اسد روایت کی سند میں ابو داود نفیع بن الحارث الاعمی ہے۔

دیکھئے انیس الساری (۸۳۸/۱)

ابو داود الاعمی کے بارے میں اس کے ہم عصر امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’کذاب‘‘ وہ جھوٹا ہے۔ (الکامل لابن عدی ۲۵۲۳/۷۔ ۲۵۲۴ و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ ۳۲۸/۸، نیز دیکھئے مسائل صالح بن احمد بن حنبل: ۳۱۷، اور موسوعۃ اقوال الامام احمد ۲۶/۴)

حاکم نیشاپوری نے کہا: ’’روی عن بریدة الاسلتمی و انس بن مالك احادیث موضوعة‘‘ اس نے بریدہ الاسلمی اور انس بن مالک (رضی اللہ عنہما) سے موضوع حدیثیں بیان کیں۔ (المدخل الی الصحیح ص۲۱۸ ت۲۱۰)

خود حافظ ابن حجر نے کہا: ’’متروک و قد کذبہ ابن معین‘‘ و متروک ہے اور ابن معین نے اسے کذاب کہا۔ (تقریب التہذیب: ۷۱۸۱)

خلاصہ یہ کہ یہ سند بھی موضوع ہے۔

ان چار مثالوں سے ثابت ہوا کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر کا کسی حدیث یا روایت پرسکوت کرنا اس کے صحیح یا حسن یا حجت ہونے کی دلیل نہیں بلکہ علماء کو چاہئے کہ اصل کتابوں کی طرف رجوع کرکے مذکورہ روایت کی تحقیق کریں اور پھر اگر صحیح و حسن ثابت ہو جائے تو بطورِ حجت پیش کریں۔

اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مجرد سکوت سے استدلال نہ کریں اور ہمہ تن تحقیق کے لئے مصروف رہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص305

محدث فتویٰ

تبصرے