السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص عرفہ کے دن بیمار ہوگیا جس کی وجہ سے اس نے منیٰ میں رات گزاری۔ نہ وہ رمی جمار کر سکا اور نہ ہی طواف کر سکا، تو اس پر کیا لازم ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر یہ شخص عرفہ کے دن اس قدر شدید بیمار ہوگیا کہ اس کے لیے حج کو مکمل کرنا ممکن نہ رہا، حالانکہ اس نے احرام باندھتے وقت یہ شرط عائد کی تھی کہ اگر مجھے کوئی روکنے والا روک لے، تو میں وہاں حلال ہو جاؤں گا، جہاں تو مجھے روک دے گا، تو وہ حلال ہو جائے اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ لازم نہ ہوگا، البتہ اگر یہ حج فرض ہو تو اسے یہ حج کسی دوسرے سال ادا کرنا ہوگا اور اگر اس نے بوقت احرام وہ مذکورہ بالا شرط عائد نہیں کی تھی تو راجح قول کے مطابق اگر اس کے لیے حج مکمل کرنا ممکن نہ ہو تو وہ حلال ہو جائے لیکن اس پر ہدی (قربانی) واجب ہوگی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَن تَمَتَّعَ بِالعُمرَةِ إِلَى الحَجِّ فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ...﴿١٩٦﴾... سورة البقرة
’’تو جو تم میں حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے، وہ جیسی قربانی میسر ہو کر (کردیں)۔‘‘
اس کے الفاظ کہ ’’اگر روک دیے جاؤ‘‘ کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ دشمن کی وجہ سے روک دیے جانے یا کسی اور وجہ سے روک دیے جانے سب کو شامل ہیں کیونکہ احصار کے معنی یہ ہیں کہ کوئی بھی رکاوٹ انسان کو حج کرنے سے روک دے، لہٰذا یہ مریض حلال ہو جائے اور ایک قربانی کر دے۔ اس کے علاوہ اور کچھ اس پر لازم نہیں اِلاّ الا َیہ کہ اگر اس نے اب تک فرض حج نہیں کیا، تو اسے اگلے سال حج کرنا ہوگا۔ اگر یہ مریض حج کے دنوں میں چلتا رہا اور اس نے مزدلفہ میں وقوف کیا لیکن اس نے منیٰ میں رات گزاری نہ جمرات کو رمی کی تو اس حال میں اس کا حج صحیح ہے لیکن واجب کو ترک کرنے کی وجہ سے اس پر دم (خون) لازم ہوگا یعنی اس پر دو دم لازم ہیں، ایک منیٰ میں رات بسر نہ کرنے کی وجہ سے اور دوسرا جمرات کو رمی نہ کرنے کی پاداش مین۔ جب اللہ تعالیٰ اسے صحت و عافیت عطا فرما دے، تو وہ طواف افاضہ کر لے کیونکہ راجح قول کے مطابق طواف افاضہ ماہ ذوالحجہ کے آخر تک کیا جا سکتا ہے اور اگر کسی عذر کی وجہ سے نہ کیا جا سکا ہو تو پھر طواف افاضہ عذر کے ختم ہونے تک کیا جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب