السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یوں کہنا درست ہے کہ فلاں حدیث سندا تو صحیح ہے مگر متنا ضعیف ہے یا روایتاً صحیح ہے درایتا ضعیف ہے۔ علم حدیث کی دو (۲) اقسام بعض نصابی کتب، ایم اے اسلامیات، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، میں لکھی ہوئی ہیں:
۱۔ علم اروایۃ ۲۔ علم ادرایۃ
کیا یہ تقسیم محدثین کے ہاں معروف ہے یا موجودہ تجدد کی اپج ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کویئ حدیث معلول ہونے یا شذوذ کی وجہ سے ضعیف ہو تو یہ کہنا درست ہے کہ فلاں حدیث (بظاہر) سندا تو صحیح ہے مگر متنا ضعیف ہے۔ کیونکہ یہ روایت علت قادحہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
علت قادحہ اور معلول ہونے کا فیصلہ صرف محدثین کرام اور علم علل حدیث کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔
’’بظاہر‘‘ کی قید ہٹا کر کہنا کہ ’’فلاں حدیث سندا صحیح ہے مگر متننا ضعیف ہے یا روایتا صحیح ہے درایتا ضعیف ہے۔‘‘ غلط ہے۔ جو حدیث سندا صحیح ہو، شاذ یا معلول نہ ہو اور محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہو تو وہ ہمیشہ صحیح ہی ہوتی ہے اور اس کا متن بھی ہمیشہ صحیح ہی ہوتا ہے۔ رہا بعض بظاہر صحیح نظر آنے والی سندوں کا معاملہ جن کا متن ضعیف یا وہم ہوتا ہے تو ان کے ضعیف یا وہم ہونے کا ثبوت بذریعۂ محدثین اس روایت میں شذوذ اور علت قادحہ سے ملتا ہے۔
اہل حدیث (محدثین کرام اور ان کے عوام) کا اس پر اجماع ہے کہ صحیح حدیث کے لئے پانچ شرطیں ہیں:
(۱) ہر راوی عادل ہو (۲) ہر راوی ضابط ہو (۳) سند متصل ہو (۴) شاذ نہ ہو (۵) معلول نہ ہو۔
اس پر اہل حدیث کا اجماع ہے۔ دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح مع شرح العراقی (ص۲۰)
شاذ اور معلول کا تعلق درایت سے ہے۔
جس راوی پر بعض محدثین کی جرح ہواور جمہور محدثین نے اسے ثقہ و صدوق قرار دیا ہو ایسا راوی ضابطہ ہونے میں کمی کی وجہ سے حسن الحدیث ہوتا ہے اور اس کی حدیث حسن لذاتہ ہوتی ہے۔ صحیح اور حسن لذاتہ دونوں حدیثیں حجت ہیں۔ والحمدللہ
علم اروایہ کی ایک شاخ علم الدرایہ (معلول اور شاذ ہونے کا علم) ہے۔
جدید دور میں بعض متجددین اور منکرین حدیث کا علم الروایہ کو علیحدہ اور علم الدرایہ کو علیحدہ قرار دے کر صحیح احادیث کو قرآن مجید یا بعض الناس کی عقل وغیرہ کے خلاف سمجھ کر رد کر دینا باطل و مردود ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب