سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(111) مرسل روایت کا حکم

  • 13632
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4831

سوال

(111) مرسل روایت کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمہور ائمہ محدثین، مرسل روایت کو احکام و مسائل میں معتبر گردانتے ہیں یا ضعیف سمجھتے ہیں۔ نیز کیا جمہور محدثین میں، محدثین احناف بھی شامل ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور محدثین کے نزدیک تابعی کی مرسل روایت ہر لحاظ سے مردود ہے۔ امام مسلم بن الحجاج النیسابوری (متوفی ۲۶۱ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والمرسل من الروایات فی اصل قولنا وقول اهل العلم بالاخبار لیس بحجة‘‘

ہمارے (محدثین) کے اصل قول اور (دوسرے) علماء کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہے۔ (مقدمہ صحیح مسلم ج۱ ص۲۲ بعد ح۹۲ و فتح الملہم ج۱ ص۴۱۰)

حافظ ابو الفضل عبدالرحیم بن الحسین العراقی (متوفی ۸۰۶ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’وردہ جماهیر النقاد للجهل بالساقط فی الاسناد‘‘

اور مرسل کو جمہور ناقدین (محدثین) نے رد کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سند میں سے ساقط شدہ واسطہ مجہول ہوتا ہے۔ (الفیۃ العراقی مع فتح المغیث ج۱ ص۱۳۴)

علامہ ابن الصلاح الشہرزوری (متوفی ۶۴۳ھ) لکھتے ہیں:

’’وما ذکرناه من سقوط الاحتجاج بالمرسل و الحکم بضعفه هو المذهب الذی استقر علیه آراء جماهیر حفاظ الحدیث ونقاد الاثر‘‘

اور ہم نے جو ذکر کیا ہے کہ مرسل ضعیف ہوتی ہے اور اس سے حجت پکڑنا ساقط ہے، یہی وہ مذہب (یعنی مسلک) ہے جس پر جمہور حفاظ حدیث اور ناقدین حدیث کا اتفاق ہوا ہے۔ (علوم الحدیث مع التقیید والایضاح ص۷۴ و نسخہ محققہ ص۱۳۰)

امام ترمذی (متوفی ۲۷۹ھ) فرماتے ہیں:

’’والحدیث اذا کان مرسلا فانه لا یصح عند اکثر اهل الحدیث‘‘

اور حدیث اگر مرسل ہو تو اکثر اہل حدیث (یعنی جمہور محدثین) کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ (کتاب العلل ط دارالسلام ص۸۹۶، ۸۹۷ و شرح علل الترمذی لابن رجب ۲۷۳/۱)

حافظ ابوبکر الخطیب البغدادی (متوفی ۴۶۳ھ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’وعلی ذلک اکثر الائمة من حفاظ الحدیث و نقاد الاثر‘‘

اور اس پر (یہ کہ مرسل حجت نہیں ہے) اکثر ائمہ حفاظ حدیث اور ناقدین حدیث ہیں۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ ص۳۸۴)

حافظ متقن علامہ ابن خلفون الاندلسی (متوفی ۶۳۶ھ) اپنی کتاب ’’المتقی فی الرجال‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ولا اختلاف اعلمه بینهم انه لا یجوز العمل بالمرسل اذا کان مرسله غیر متحرز یرسل عن غیر الثقات‘‘ اس بات میں مجھے کوئی اختلاف معلوم نہیں ہے کہ اگر ارسال کرنے والا محتاط نہ ہو اور غیر ثقہ راویوں سے روایت کرے تو مرسل پر عمل جائز نہیں ہے۔ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی ص۱۵۸)

حافظ یحیی بن شرف النوی (متوفی ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:

’’ثم المرسل حدیث ضعیف عند جماهیر المحدثین و کثر من الفقهاء و اصحاب الاصول‘‘ پھر یہ کہ مرسل حدیث جمہور محدثین، بہت سے فقہاء اور علمائے اصول کے نزدیک ضعیف حدیث ہے۔ (تقریب النووی مع تدریب الراوی ج۱ ص۱۹۸)

ان نقول علماس کے مقابلے میں ’’رسالہ ابی داود الی اھل مکہ فی وصف سننہ‘‘ میں لکھا ہوا ہے:

’’واما المراسیل فقد کان یحتج بها العلماء فیما مضی مثل سفیان الثوری‘‘

اور مراسیل سے اگلے علماء حجت پکڑتے تھے جیسے سفیان ثوری۔ (رسالہ ابی داود ص۲۵)

اسے عبدالحئی لکھنوی حنفی (متوفی ۱۳۰۴ھ) نے ’’واما المراسیل فقد کان اکثر العلماء یحتجون بها فیما مضی مثل سفیان الثوری‘‘ (ظفر الامانی فی مختصر الجرجانی ص۳۸۴، ۳۸۵) کے الفاظ میں نقل کیا ہے۔

تنبیہ:

اکثر العلماء کا لفظ رسالہ ابوداود میں موجود نہیں ہے۔

نیز دیکھئے النکت لابن حجر (۵۶۸/۱)

ایسی نقول پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ زرکشی (متوفی ۷۹۴ھ) لکھتے ہیں:

’’وینبغی ان یکون مرادهم اکثر اهل الاصول‘‘

اور اس سے مراد یہ لینی چاہیے کہ اکثر اہلِ اصول (واہلِ فقہ) ہیں۔ (النکت للزرکشی ص۱۵۶)

اس سلسلے میں ابن جریر طبری کی طرف منسوب ایک مردود و باطل قول بھی ہے، اس کی تردید کے لیے النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للحافظ ابن حجر (۵۶۸/۱)وغیرہ دیکھیں۔

حافظ العلائی (متوفی ۷۶۱ھ) اس پر (یعنی ابن جریر کی طرف منسوب قول پر) تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ان دعوی الاجماع فی ذلک باطل قطعا‘‘

اس (مرسل کی حجیت) کے بارے میں دعوی اجماع یقیناً باطل ہے۔ (جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص۶۸)

خلاصہ یہ کہ صحابہ کی مراسیل روایات تو قطعا مقبول ہیں لیکن تابعین کی مرسل روایات جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و غیرمقبول ہیں۔

محدثین احناف میں سے امام ابوحنیفہ (متوفی ۱۵۰ھ) کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ہے۔ حافظ طحاوی حنفی (متوفی: ۳۲۱ھ) کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ منقطع (یعنی) مرسل روایت کی حجت نہیں سمجھتے تھے۔ دیکھئے شرح معانی الآثار (ج۲ ص۱۶۴ کتاب السیر باب الرجل یسلم فی دارالحرب و عندہ اکثر من اربع نسوۃ)

حافظ طحاوی حنفی (جمہور) محدثین کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وهم لا یحتجون بالمرسل‘‘ اوروہ مرسل کو حجت نہیں مانتے۔ (معانی الآثار ۶/۲ کتاب النکاح، باب النکاح بغیر ولی عصبۃ)

حافظ ابن عبدالبر الاندلسی (متوفی ۴۶۳ھ) کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ (مرسل کو حجت سمجھنے والے) حنفی و مالکی حضرات مناظروں میں مرسل کو حجت نہیں سمجھتے۔

دیکھئے المتہید (ج۱ص۷)

ابن حزم الاندلسی (متوفی ۴۵۶ھ) نے ان لوگوں کا سختی سے رد کیا ہے جو مرسل کو حجت تسلیم کرنے کے بعد خواہشاتِ نفسانیہ کے لیے اسے رد کر دیتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص290

محدث فتویٰ

تبصرے