السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا خبر واحد کے ساتھ قرآنِ مجید کے عام حکم کی تخصیص جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خبر واحد، صحیح کے ساتھ قرآن مجید کے عام حکم کی تخصیص کرنا، جائز بلکہ ضروری ہے۔
مثلاً عام حکم ہے: ﴿حرمت علیکم المیتة﴾ تم پر، مرادر حرام کیا گیا ہے۔ (المائدہ:۳)
جبکہ خاص حکم ہے:
«میتة البحر حلال» سمندر کا مردار (مچھلی وغیرہ) حلال ہے۔ (المستدرک ۱۴۳/۱ ح۵۰۱و سندہ حسن)
اس خاص حکم نے عام حکم کی تخصیص کر دی لہٰذا مردار حرام ہے سوائے مچھلی (وغیرہ) کے۔
قرآن مجید کی تخصیص، خبر واحد کے ساتھ کرنا صحابۂ کرام، تابعین عظام اور جمہور امت کا مسلک ہے (اور روایت ہے کہ) ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد) بھی اس کے قائل ہیں۔
’’واما بالخبر الواحد فقال بجوازه الائمة الاربعة‘‘ اور (رہی بات) خبر واحد کے ساتھ (قرآن کی تخصیص) تو ائمہ اربعہ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ (منتہی الوصول لابن الحاجب ص۳۲۰ غیث الغمام لعبد الحئی اللکنوی ص۲۷۷، الاحکام للآمدی ج۲ ص۳۴۷، اجابۃ السائل شرح بغیۃ الآمل للصنعانی ص۳۲۹)
شہاب الدین ابو العباس احمد بن ادریس القرافی (متوفی ۶۸۴ھ) نے بھی اسے امام ابوحنیفہ، امام شافعی وغیرہما کا مسلک قرار دیا ہے۔ (شرح تنقیح الفصول فی اختصار المحصول فی الاصول ص۲۰۸)
عیسی بن ابان یا بعض متاخرین حنفیہ و اہل کلام کا خبر واحد کو ظنی کہہ کر تخصیص عموم القرآن نہ کرنا ائمہ اربعہ کے بھی خلاف ہے اور ادلہ صحیحہ کے بھی لہٰذا یہ مردود ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب