سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(97) عظمت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور منکرین حدیث

  • 13618
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 4754

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک صاحب کی زبانی واقعہ سننے کا اتفاق ہوا: ’’ایک دن مسجد نبوی کے صحن میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے اور کچھ حاضرین کو کوئی حدیث بیان کر رہے تھے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو کہنے لگے: ابوہریرہ! جو بات آپ بیان کر رہے ہیں، جب یہ واقع رونما ہوا اس وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور یہ بات ہرگز ایسے نہ تھی، آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط بات منسوب کرتے ہوئے خدا کا خوف محسوس نہ ہوا اور اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں (عمر) اس کی گردن مار دیتا‘‘ العیاذ باللہ 

کیا یہ واقعہ صحیح ثابت ہے؟

ساتھ ہی گفتگو کے دوران ان صاحب نے اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ

’’ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے دریافت کیا: اب آپ بہت سی احادیث روایت کرتے ہیں جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ایسا نہیں تھا، تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: اس وقت مجھے اپنی گردن ماری جانے کا خوف تھا۔‘‘

کیا یہ واقعات صحیح ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمد للہ رب العالمین والصلوة والسلام علی رسوله الامین، امابعد:

یہ (پہلا) واقعہ بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع اور باطل ہے۔ مجھے کسی کتاب میں یہ واقعہ باسند صحیح نہیں ملا۔ اس بے اصل قصے کے سرابر برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ اس کی دلیل کے طور پر صحیح احادیث سے تین حوالے پیش خدمت ہیں:

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

(۱)          سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی جو کھال پر سوئی سے گود کر لکھتی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور (صحابہ کرام سے) فرمایا: میں تمھیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا تم سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوئی سے گودنے کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہا: اے امیر المومنین! میں نے سنا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا سنا ہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ

«لاتثمن ولا تستوشمن»ض گود نے کا کام نہ کرو اور نہ کسی سے گدواؤ۔ (صحیح بخاری: ۵۹۴۶)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث کے بارے میں پوچھنا اور اس پر اعتراض نہ کرنا اس کی واضح دلیل ہے کہ وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو سچا اور قابل اعتماد سمجھتے تھے۔

(۲)         ایک دفعہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ مسجد میں اشعار ضڑھ رہے تھے کہ وہاں سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گزرے تو انھوں نے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کو گوشۂ چشم سے (غصے کے ساتھ) دیکھا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو اس وقت بھی مسجد میں اشعار پڑھتا تھا جب اس میں آپ سے بہتر شخص سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوتے تھے پھر انھوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر کہا: میں پ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ «اجب عنی، اللهم ایده بروح القدس»

میری طرف سے جواب دو، اے اللہ! اس (حسان) کی روح القدس کے ذریعے سے مدد فرما؟

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں۔ (صحیح مسلم: ۲۴۸۵/۱۵ [۶۳۸۴])

(۳)         سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

’’یا اباهریرة! انت کنت الزمنا لرسول الله صلی الله علیه وسلم و احفظنا لحدیثه‘‘

اے ابوہریرہ! آپ ہم میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے زیادہ رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سب سے زیادہ یاد کرنے والے تھے۔ (سنن الترمذی: ۳۸۳۶ و سندہ صحیح، وقال الترمذی: ’’ھذا حدیث حسن‘‘ و صححہ الحاکم ۵۱۰/۳، ۵۱۱ ح۶۱۶۷ ووافقہ الذہبی)

ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر بھرپور اعتماد تھا اور وہ اس کااعتراف بھی کرتے تھے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نہ صرف عمر رضی اللہ عنہ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے بھی محبوب تھے۔

تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو امتیاز حیثیت حاصل تھی۔

سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو (حجۃ الوداع میں) منادی کرنے والا بنا کر بھیجا تھا۔ (صحیح بخاری: ۳۶۹)

اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے نزدیک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بہت بڑا مقام تھا۔ یاد رہے کہ اس حج میں سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منادی کرنے والا بنا کر بھیجا تھا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

ایک دفعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کے بارے میں پوچھا گیا پس انھوں نے فرمایا:

’’صدق ابو ھریرۃ‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ن سچ کہا ہے۔ (طبقات ابن سعد ۳۳۲/۴ و سندہ صحیح) 

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نمازِ جنازہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی تھی۔ (اتاریخ الصغیر للبخاری ص۵۵ دوسرا نسخہ ۱۲۸/۱، ۱۹۲ و سندہ صحیح، ابن وہب رواہ عن ابن جریج والراوی عنہ ابن صالح اوابن عیسی المصری وکلا ہما ثقتان)

سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے اللہ! ابوہریرہ اور اس کی ماں کو اپنے مومن بندوں کا محبوب بنا دے۔ (صحیح مسلم: ۲۴۹۱/۱۵۸ [۶۳۹۶])

یہ دعا قبول ہوئی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہر مومن جو میرے بارے میں سن لیتا ہے تو بغیر دیکھے ہی مجھ سے محبت کرتا ہے۔ (صحیح مسلم: ۲۴۹۱ نحو المعنی)

خلاصۃ التحقیق:

ان تمام روایات اور دیگر احادیث صحیحہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسئولہ بالاقصہ بے اصل اور موضوع ہے۔

دوسرا قصہ: گردن ماری جانے کا خوف!

یہ قصہ بھی بے اصل اور موضوع ہے۔ اس سلسلے میں چند دیگر روایات کی تحقیق درج ذیل ہے:

۱۔             محمد بن عجلان سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: میں ایسی حدیثیں بیان کرتا ہوں، اگر میں عمر (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں یہ حدیثیں بیان کرتا تو آپ میرا سر (مار مار کر) زخمی کر دیتے۔ (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر ۱۱۰/۸، وسیر اعلام النبلاء للذہبی ۶۰۱/۲)

عبداللہ بن وہب المصری رحمہ اللہ سے نیچے سند غائب ہونے کے ساتھ ساتھ یہ روایت سخت منقطع ہے۔ دیکھئے الانوار الکاشفہ (ص۱۵۵) ابن عجلان مدلس بھی تھے۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر (۳/۹۸، المرتبۃ الثالثۃ) و مشکل الاآثار للطحاوی (۱۰۰/۱، ۱۰۱)

۲۔ صالح بن ابی الاخضر عن الزہری عن ابی سلمۃ کی سند سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ہم عمر (رضی اللہ عنہ) کی وفات سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان نہیں کرسکتے تھے۔ (البدایۃ و النہایۃ ۱۱۰/۸)

یہ سند ضعیف و مردود ہے۔ صالح بن ابی الاخضر: ’’ضعیف یعتبربہ‘‘ ہے۔ (التقریب: ۲۸۴۴)

امام زہری مدلس تھے۔ دیکھئے طبقات المدلسین (۳/۱۰۲، المرتبۃ الثالثۃ) اور شرح معانی الآثار للطحاوی (۵۵/۱ باب مس الفرج)

صالح بن ابی الاخضر سے نیچے والی سند یہاں غائب ہے اور سیر اعلام النبلاء (۶۰۲/۲) میں اس کا صالح سے راوی یزید بن یوسف الرحبی ضعیف ہے لہٰذا یہ سند صالح سے بھی ثابت نہیں ہے۔

۳۔           بغیر سند کے ’’محمد بن یحیی الذھلی: ثنا عبدالرزاق عن معمر عن الزھری‘‘ کی سند سے مروی ہے کہ ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: میں عمر (رضی اللہ عنہ) کی زندگی میں یہ حدیثیں بیان نہیں کرستا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میری پیٹھ پر کوڑا برسے گا۔ (البدایۃ والنہایۃ ۱۱۰/۸)

یہ روایت کئی وجہ سے مردود ہے:

(۱)          امام زہری نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا۔ ان کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت منقطع ہوتی ہے۔ دیکھئے الاتحاف المہرۃ لابن حجر (۵۹۰/۱۵) و تحفۃ التحصیل فی ذکر رواۃ المراسیل للعراقی (ص۲۸۹) و جامع التحصیل (ص۲۶۹)

(۲) امام زہری کی تدلیس کے علاوہ امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ بھی مدلس تھے۔ دیکھئے طبقات المدلسین (۲/۵۸، المرتبۃ الثانیۃ، صحیح یہ ہے کہ وہ مرتبہ ثالثہ سے ہیں) و کتاب الضعفاء للعقیلی (۱۱۰/۳، ۱۱۱ و سندہ صحیح)

صرف یہ روایت ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (کثرت سے) حدیث بیان کرنا چھوڑ دو ورنہ میں تمھیں (تمھارے قبیلے) دوس میں بھیج دوں گا۔ (تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی: ۱۴۷۵، وسندہ صحیح)

یہ روایت اس پر محمول ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کثرت سے احادیث بیان کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ تاکہ لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ (دیکھئے البدایۃ والنہایۃ ۱۱۰/۸)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس طرح دوسرے صحابہ کو بھی منع کیا تھا کہ کثرت سے حدیثیں بیان نہ کریں۔ دیکھئے سیر اعلام النبلا للذہبی (۶۰۱/۲)

اس فاروقی اجتہاد کے مقابلے میں دیگر صحابہ مثلاً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوسعید الحذری رضی اللہ عنہ وغیرہم کثرت سے صحیح احادیث بیان کرتے تھے اور جمہور صحابہ کا یہی طرزِ عمل راجح ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے عظیم حافظے کا ایک صحیح واقعہ

ابو زعیزعہ کاتب مروان سے روایت ہے کہ مروان بن الحاکم نے (سیدنا) ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کو بلایا اور (حدیثیں) پوچھنے لگا۔ مروان نے مجھے پردے کے پیچھے بٹھا رکھا تھا تاکہ میں (یہ حدیثیں) لکھوں۔ اگلے سال مروان نے (سیدنا) ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کو دوبارہ بلایا اور ان احادیث کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اس نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں لکھی ہوئی کتاب کو دیکھتا رہوں۔ میں نے دیکھا کہ ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے ایک حرف کا بھی فرق نہیں کیا۔ (الاشراف علی مناقب الاشراف لابن ابی الدنیا ص۱۵۷، ۱۵۸ ح۳۱۱ و سندہ حسن، المستدرک للحاکم ۵۱۰/۳ ح۶۱۶۴ وقال: ’’ھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘ وقال الذہبی: ’’صحیح‘‘) 

سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ نے کیسا عظیم الشان حافظہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا تھا!

تنبیہ:

حاکم اور ذہبی کی توثیق بذریعۂ تصحیح حدیث کے بعد ابو زعیزعہ کو مجہول کہنا غلط ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک عظیم الشان کرامت

قاضی ابو الطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جامع منصور میں ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراستانی نوجوان آیا تو اس نے جانور کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے کے بارے میں پوچھا اور دلیل کا مطالبہ کیا تو ایک استدلال کرنے والے (محدث) نے اس مسئلے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پیش کی تو وہ خبیث نوجوان بولا: ’’ابوھریرۃ غیر مقبول الحدیث‘‘ ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے۔ قاضی ابو الطیب نے فرمایا: اس نوجوان نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ اتنے میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گر پڑا تو لوگ بھاگنے لگے اوروہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا۔ بعد میں سانپ غائب ہوگیا۔ (المنتظم لابن الجوزی ۱۰۶/۱۷ و سندہ صحیح) 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے۔ آمین

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دفاع کے لئے علمائے حق نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن میں سے درج ذیل دو کتابیں انتہائی اہم ہیں:

(۱)          دفاع عن ابی ہریرۃ (تصنیف عبدالمنعم صالح العلی العزی)

(۲)         الانوار الکاشفۃ (ص۱۰۴ تا ۲۲۸، تصنیف الشیخ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی رحمہ اللہ)

فائدہ:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سات سو سے زیاد راویوں نے حدیث بیان کی ہے۔ دیکھئے دفاع عن ابی ہریرۃ (ص۲۷۳ تا ۳۱۴) اور بعض کہتے ہیں کہ آٹھ سو سے زیادہ راویوں نے ان سے روایت بیان کی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص261

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ