سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(94) حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں

  • 13615
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 4452

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’کچھ حدیثیں ارسال کر رہا ہوں۔ مہربانی فرما کر اسماء رجال کی نظر میں (تحقیق کریں کہ) یہ روایات کیسی ہیں؟ 

نمبر ۱:       حضرت ام فضل فرماتی ہیں ایک روز میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ میں نے پوچھا: میرے ماں باپ قربان آپ کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟

آپ نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے بتایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کرے گی۔ جبرائیل اس جگہ کی سرخ مٹی بھی میرے پاس لائے جہاں انھیں قتل کیا جائے گا۔ مشکوٰۃ، بیہقی فی دلائل النبوۃ۔

نمبر ۲:      حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے۔ حسین میری  نسلوں میں سے ایک نسل ہے۔ مستدرک حاکم جلد ۳ ص۱۵۹‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱) ام الفضل بن الحارث رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب روایت دلائل النبوۃ للبیہقی (۴۶۹/۶) میں بحوالہ محمد بن مصعب: حدثنا الاوزاعی عن شداد بن عبداللہ کی سند سے مذکور ہے۔ اس کی سند محمد بن مصعب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوٰۃ المصابیح: ۶۱۷۱)

محمد بن مصعب بن صدقہ القرقسائی پر جمہور محدثین نے جرح کر رکھی ہے۔

امام احمد بن حنبل نے فرمایا: محمد بن مصعب القرقسانی کی اوزاعی سے حدیث مقارب (یعنی صحت و تحسین کے قریب) ہوتی ہے۔ (مسائل ابی داود: ۳۲۸ بحوالہ موسوعۃ اقوال الامام احمد ۳۱۷/۳، ۳۱۸، تاریخ بغداد ج۳ ص۲۷۷ و سندہ صحیح)

اس کے مقابلے میں ابوزرعہ الرازی نے کہا: ’’محمد بن مصعب یخطی کثرا عن الاوزاعی وغیرہ‘‘ محمد بن مصعب اوزاعی وغیرہ سے بہت غلطیاں کرتا ہے۔ (کتاب الضعفاء لابی زرعۃ الرازی ج۲ ص۴۰۰)

حافظ ابن حبان نے محمد بن مصعب کی اوزاعی سے ایک روایت کو ’’باطل‘‘ کہا۔ (کتاب المجردحین ۲۹۴/۲)

ابو احمد الحاکم نے کہا: ’’روی عن الاوزاعی احادیث منکرۃ‘‘ اس نے اوزاعی سے منکر حدیثیں بیان کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب ج۹ ص۴۶۱،ولعلہ فی کتاب الکنی لابی احمد الحاکم)

معلوم ہوا کہ قول راجح میں محمد بن مصعب کی اوزاعی سے بھی روایت ضعیف ہی ہوتی ہے، اسے ’’مقارب‘‘ کہنا صحیح نہیں لہٰذا یہ روایت ضعیف ہی ہے۔

(۲)         یہ روایت ’’حسین منی وانا من حسین، احب اللہ من احب حسینا، حسین سبط من الاسباط‘‘ کے متن کے ساتھ عبداللہ بن عثمان بن خثیم عن سعید بن ابی راشد عن یعلی العامری کی سند سے درج ذیل کتابوں میں موجود ہے:

مسند الامام احمد (۱۷۲/۴) وفضائل الصحابۃ للامام احمد (ح۱۳۶۱) مصنف ابن ابی شیبہ (۱۰۲/۱۲، ۱۰۳ ح۳۲۱۸) المستدرک للحاکم (۱۷۷/۳ ح۴۸۲۰ وقال: ھذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی: صحیح)

صحیح ابن حبان (الاحسان: ۶۹۳۲، دوسرا نسخہ: ۶۹۷۱) المعجم الکبیر للطبرانی (۳۳/۳ ح۲۵۸۹ و ۲۷۴/۲۲ ح۷۰۲) سنن ابن ماجہ (۱۴۴) سنن الترمذی (۳۷۷۵ وقال: ’’ھذا حدیث حسن‘‘)

اس حدیث کی سند حسن ہے۔ اسے ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔ بوصیری نے کہا: ’’ھذا اسناد حسن، رجالہ ثقات‘‘

اس کے راوی سعید بن ابی راشد: صدوق ہیں۔ حافظ ذہبی نے کہا: صدوق (الکاشف ۲۸۵/۱ ت۱۹۰۰)

انھیں ابن حبان، ترمذی اور حاکم نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔ بعض الناس کا یہ کہنا کہ ’’اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے‘‘ باطل ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ نے غلط فہمی کی بنیاد پر سعید بن ابی راشد پر جرح کرنے کے باوجود اس حدیث کو شواہد کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے اور اسے اپنی مشہور کتاب السلسلۃ الصحیحہ میں نقل کیا ہے۔ دیکھئے (ج۳ ص۲۲۹ ح۱۲۲۷)

خلاصۃ التحقیق:

یہ روایت حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص257

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ