سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) مقتول کی وراثت

  • 13607
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 824

سوال

(86) مقتول کی وراثت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص مسمی غلام رسول شیخ جو حال ہی میں ہندو سے مسلمان ہوا، جسے ایک شخص مسمی اعجاز علی نے قتل کردیا جبکہ مقتول نے اپنے پیچھے درج ذیل ورثاء چھوڑے ہیں:

(۱) والدہ مسمی وسایو (ہندو) (۲) مسماۃ بچی (ہندو) (۳) ایک چچازاد (مسلمان)

قآن و سنت کی روشنی میں واضح کریں کہ اس صورت میں مقتول کا حقیقی وارث کون ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح حدیث میں آیا ہے:

«لا یرث المسلم الکافر و لا الکافر المسلم» یعنی مسلم کا کافر وارث نہیں ہوتا اور نہ کافر مسلم کا وارث ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری: ۶۷۶۴، صحیح مسلم: ۱۶۱۴)

اس حدیث کی رو سے متوفی کے والد اور ماں اس کے وارث نہیں ہیں۔ اب اس کے رشتہ داروں میں جو ’’اولیٰ ذکر‘‘ مسلم زندہ ہے، وہی وارث ہے۔ مثلاً چچا زاد مسلمان بھائی اس کا وارث ہے، اگر دوسرا کوئی اولیٰ ذکر (قریبی رشتہ دار مرد) موجود نہ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص236

محدث فتویٰ

تبصرے