سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) وراثت کا ایک مسئلہ

  • 13606
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 934

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گزارش ہے کہ مجھے اپنے حقیقی ماموں (شیخ محمد سمیع مرحوم) کی وراثت تقسیم کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی درکار ہے۔ مرحوم غیرشادی شدہ تھے۔ ان کا انتقال ۱۹۷۹ء میں ہوا جبکہ ان کے والدین ان کی وفات سے قبل ہی وفات پاچکے تھے۔ مرحوم کے وارثان میں مندرجہ ذیل افراد شامل ہیں:

حقیقی ہمشیران: ۵ (پانچ)، پھوپھی: ۱ (ایک)، چچازاد بہن: ۱ (ایک)، چچا زاد بھائی: ۱ (ایک) جو مرحوم سے پہلے ہی ۱۹۷۵ میں فوت ہوئے، وہ درج ذیل ہیں:

(ان چچازاد کی اولاد) بیٹے: ۴ (چاار)، بیٹیاں: ۴ (چار)

براہِ کرم مذکورہ رشتہ داروں میں وراثت کی تقسیمک لیے رہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں  وراثت کی تقسیم درج ذیل ہے:

پانچ (۵) حقیقی ہمشیروں کا حصہ: دو تہائی (۲/۳)

دلیل کے لئے دیکھئے سورۃ النساء آیت: ۱۷۶

باقی بچا ایک تہائی (۱/۳) یہ حصہ

حدیث: «الحقوا الفرائض باهلها فما بقی فهولا ولی رجل ذکر» وراثت کو اس کے حق داروں تک پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ (میت کے) سب سے زیادہ قریبی مرد رشتہ دار کا حصہ ہے۔ (صحیح بخاری: ۶۷۳۲ و صحیح مسلم: ۱۶۱۵)

کی رو سے چچازاد بھائی کے چاروں بیٹوں کو ملے گا۔ اس حدیث کی رو سے، صورتِ مسئولہ مں میت کی پھوپھی، میت کی چچا زاد بہن اور چچازاد بھائی کی بیٹیاں وراثت سے محروم رہیں گی۔ 

تنبیہ:

یہ جواب صرف اسی حالت میں ہے کہ میت کا دوسرا کوئی قریبی رشتہ دار موجود نہیں ہے۔ صرف وہی رشتہ دار ہیں جو اس سوال میں مذکور ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص235

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ