السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے اور میری دعا ہے کہ اللہ آپ سے دین حق اور دین اسلام کا زیادہ سے زیادہ کام لے اور شہادت کی موت عطا فرمائے۔ محترم مجھے کچھ مسائل درپیش ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں مجھے ان کا حل بتا دیں۔ جزا کم اللہ خیراً
(۱) میرے بھائی کو کچھ عرصہ پہلے Medical rap کی نوکری ملی ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ مجھے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ میں اگر تمہاری دوائیاں فروخت کروں تو مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ بھائی نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ چاہیں؟ اس قسم کی بحث کے بعد آخرکار ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے ایک عدد موبائل کارڈ لادیں۔ آپ کی دوائیاں (Medicine) کل تک فروخت ہو جائیں گی۔ ۳۰۰ والا کارڈ لادیا اور بعد میں کمپنی سے اپنے پیسے وصول کرلیے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ رشوت میں آئے گا یا نہیں اگر یہ رشوت ہے تو ان حالات میں میں کیا کروں کیونکہ میں گھر میں اکیلا اہل حدیث ہوں۔ اور میرے منع کرنے سے جھگڑا ہوسکتا ہے۔ (قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں)
(۲) میرا کزن بینک کی نوکری کرتا ہے۔ اگر میں اس کے گھر جاؤں تو کچھ کھا سکتا ہوں یا نہیں یا اس کی دعوت قبول کرسکتا ہوں۔ اس کے والد ملک سے باہر کام کرتے ہیں اور مجھے ان کی کمائی پر کوئی شک نہیں۔ اور کیا بینک کی تمام نوکریاں حرام ہیں؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
(۳) کیا بے نمازی کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی اور سالن کھا سکتے ہیں۔ میری والدہ کبھی نماز پڑھتی ہے اور کبھی نہیں۔ حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
(۴) کیا میں دینی پروگرام میں جاسکتا ہوں جبکہ میرے ابو ان سے منع کرتے ہیں اور مجھ سے ناراض ہوتے ہیں اور گھر میں اس وجہ سے جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ میں کوئی پروگرام چھوڑنا بھی نہیں چاہتا۔ ان حالات میں میں کیا کروں۔
مجھے آپ کی طرف سے نصیحت بھی مطلوب ہے کیونکہ میرے گھر کے حالات میرے اہل حدیث ہونے کی وجہ سے سخت ہیں اور کبھی کسی بات سے بہت خراب ہو جاتے ہیں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ شکریہ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کے سوالات کے مختصر جوابات درج ذیل ہیں:
یہ رشوت کے حکم میں آتا ہے۔ آپ صبر کریں اور جب موقع ملے بڑے اچھے طریقے، ادب اور پیار سے اپنے بھائی کو سمجھا دیں۔ اگر وہ ناراض ہوں تو بحث نہ کریں۔ ادب و احترام اور محبت سے ان سے تعلقات قائم رکھیں۔ قطع رحمی سے مکمل طور پر اجتناب کریں۔
بینک کی نوکری سودی کاروبار کی وجہ سے ناجائز ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اپنے کزن سے بائیکاٹ کردیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ ’’میرا ایک پڑوسی ہے جس کا مال میرے خیال میں خبیث یا حرام ہی ہے۔ وہ مجھے کبھی کبھار (کھانے کی) دعوت دے دیتا ہے۔ اگر میں نہ جاؤں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ائته او اجبه فانما وزره علیه‘‘ جا کر دعوت قبول کر لیا کرو، اس کا گناہ صرف اسی پر ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج۵ ص۳۳۵ و سندہ حسن)
(۱) دعوت دینے والا اگر کسی خاص کھانے کے بارے میں کہے کہ یہ سود یا حرام سے تیار شدہ ہے تو یہ کھانا نہیں کھانا چاہیے۔
ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ دعوت کا گوشت چوری کا ہے تو آپ نے وہ قیدیوں کو کھلانے کا حکم دیا، یعنی خود نہیں کھایا۔
دیکھئے سنن ابی داود (۳۳۳۲ و سندہ صحیح)
(۲) جو شخص سودی اور حرام کاروبار کرتا ہے اسے مناسب موقع و محل پر نصیحت کرنا، قرآن و حدیث سنانا اور اس کاروبار سے توبہ کرانے کی کوشش کرنا انتہائی مستحسن کام ہے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے اور اگر ہاتھ سے (تبدیل کرنے کی) طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم: ۴۹ و ترقیم دارالسلام: ۱۷۷)
بس یہ یاد رکھیں کہ صلہ رحمی اور رشتہ داری ٹوٹ نہ جائے۔
(۳) اگر گناہ گار آدمی کی دعوت قبول نہ کرنے میں یہ امکان ہے کہ وہ توبہ کرکے گناہ چھوڑ دے گا تو پھر دعوت رد بھی کی جا سکتی ہے۔
نماز کا ترک کر دینا کفر ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بے نمازی کا پکا ہوا کھانا حرام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودیہ عورت کی دعوت قبول فرمائی تھی۔
دیکھئے صحیح بخاری (۴۴۲۸، ۲۶۱۷) و صحیح مسلم (۲۱۹۰) و سنن ابی داود (۴۵۰۸، ۴۵۱۱)
آپ اپنی والدہ کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی اور سالن بغیر کسی شک و شبہ کے کھا سکتے ہیں۔ اگر والدین مشرک بھی ہوں تب بھی دنیا میں اچھے طریقے سے ان کی مصاحبت اختیار کرنی چاہیے۔ دیکھئے سورۃ لقمان، آیت: ۱۴، ۱۵
آپ اپنی والدہ کی خوب خدمت کریں۔ معروف (نیکی) میں پوری پوری اطاعت کریں۔ ان کا دل دکھانے کی کبھی جسارت نہ کریں۔ انتہائی پیار و محبت اور ادب کے ساتھ انہیں نماز پڑھنے کی دعوت دیتے رہیں اور اللہ سے رو رو کر دعا کریں کہ وہ انہیں نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اول: جو فرض واجب ہے مثلاً نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا وغیرہ ان امور میں اگر والدین یا حاکمیا جو کویئ شخص منع کرے تو اس کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «لا طاعة فی معصیة»
(اللہ کی) نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ (صحیح بخاری: ۷۲۵۷ و صحیح مسلم: ۱۸۴۰)
دوم: جن دینی امور میں جانا جائز و مستحب ہے مثلاً تبلیغی جلسے اور پروگرام وغیرہ، اگر ان سے والدین منع کریں تو ان کی اطاعت کریں اور ان جلسوں و پروگراموں میں نہ جائیں۔ یاد رہے کہ والدین کی اطاعت بھی فرض ہے الا یہ کہ وہ قرآن و حدیث کی مخالفت کا حکم دیں تو پھر ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ آپ اپنے والدین کو ناراض نہ کریں اور نہ گھر میں جھگڑا کرنے کی کوشش کریں رہا پروگرام تو کسی دوست سے اس کی کیسٹ کروا لیں اور بعد میں مناسب موقع پر سن لیں۔ اگر آپ کسی پروگرام یا دینی کام میں شامل نہ ہوں اوراس کا نقصان و ضرر زیادہ ہو تو پھر اجتہاد کرکے ان کاموں میں شامل ہو جائیں اور ہر ممکن طریقے سے والدین کو راضی رکھنے کی کوشش کریں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب