السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقہ میں بلکہ پورے پاکستان میں یہ پراپرٹی والی وبا پھیلی ہے وضاحت فرمائیں قرآن و سنت اور دیگر جدید مسائل سے۔ میں ماہنامہ الحدیث کا ایک سال سے قاری ہوں۔ چونکہ لوگ مشقت والا کام چھوڑ کر اس پراپرٹی والے سلسلے میں پڑے ہیں اور آپ کو علم ہوگا اس میں بہت منفعت ہے۔ ایک دن میں لاکھوں کا مالک بن جاتا ہے، چاہے وہ پہلے بالکل غریب ہی کیوں نہ ہو۔ وضاحت فرمائیں۔ چونکہ اس حوالہ سے دشواری کا سامنا ہے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کمیشن کے بارے میں جہاں تک میری معلومات ہیں، یہ دلالی کی ایک قسم ہے۔ دلالی کے بارے میں دو موقف ہیں:
اول: اگر فریقین راضی ہوں۔ باہم دھوکہ، فراڈ اور کذب بیانی نہ ہو تو جائز ہے۔
سیدنا قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«کنا نسمی السماسرة علی عهد رسول الله صلی الله علیه وسلم فاتا نا و نحن بالبقیع و معنا العصی فسمانا باسم هو اسحن منه فقال:«یا معشر التجار……»
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دلال کہا جاتا تھا۔ پس (ایک دن) آپ ہمارے پاس آئے اور ہم بقیع میں اپنی رسیوں کے ساتھ (تجارت میں مصروف) تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیں اس سے بہترین نام کے ساتھ آواز دی، فرمایا: اے تاجرو! (مسند الحمیدی بتحقیقی قلمی ج۱ ص۳۰۴ ح۴۳۸ و سندہ صحیح، و نسخہ حسین سلیم اسد ج۱ ص۴۰۵ ح۴۴۲)
یہ روایت مختلف اسانید کے ساتھ سنن ابی داود (۳۳۲۶) و سنن الترمذی (۱۲۰۸ وقال: حسن صحیح) و سنن النسائی (۳۸۲۸، ۳۸۲۹) و سنن ابن ماجہ (۲۱۴۵) و منتقی ابن الجارود (۵۵۷) و مستدرک الحاکم (۵/۲ و صححہ ووافقہ الذہبی) و مشکل الاآثاار للطحاوی (۱۳/۳، ۱۴) میں موجود ہے۔
اس حدیث سے دلالی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ عربی لغت میں ’’السمسرة‘‘ کا معنی ’’دلالی، ایجنٹ گری، کمیشن اور دلالی کی اجرت‘‘ ہے۔ (دیکھئے القاموس الوحید ص۸۰۰)
نیز دیکھئے صحیح بخاری کتاب الاجارۃ باب اجر السمسرۃ قبل ح۲۲۷۴
دوم: دلالی ممنوع ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا یبع حاضر لباد»کوئی شہری کسی دیہاتی کا مالِ تجارت نہ بیچے۔ (صحیح بخاری، ۲۷۲۳ و صحیح مسلم: ۱۵۱۵/۱۱)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ ’’حاضر لباد‘‘ کا کیا مطلب ہے؟
تو انھوں نے فرمایا: ’’لایکون له سمسارا‘‘ اس کا دلال نہ بنے۔ (مصنف عبدالرزاق ج۸ ص۱۹۸ ح ۱۴۸۷۰ و سندہ صحیح، و مصنف ابن ابی شیبہ ج۶ ص۵۷۸ ح۲۲۰۵۸)
اس حدیث سے دلالی کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔
ان دونوں روایتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ دھوکہ، فراڈ اور کذب بیانی والی دلالی ہو تو حرام ہے اور اگر یہ برائیاں نہ ہوں۔ باہمی مفاد و خیر خواہی مطلوب ہو اور فریقین راضی ہوں تو مع الکراہت جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب