سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) نقد اور ادھار میں فرق

  • 13596
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1049

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا ایک موٹر سائیکل ہے جسے میں نے ساٹھ ہزار (۶۰۰۰۰) روپیہ میں نقد لیا ہے اور دس مہینے ادھار کے لئے گاہک کو (۹۵۰۰۰) ہزار میں دینا چاہتا ہوں، وہ گاہک بھی بخوشی خریدنے کے لئے تیار ہے۔ اب میرا منافع ٹھہرتا ہے پینتیس (۳۵۰۰۰) رپیہ۔ کیا اس قسم کی تجارت جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع کیا ہے: ’’نهی رسول الله صلی الله علیه وسلم عن بیعتین فی بیعة‘‘ (سنن ترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج۲ ص۲۳۵ ح۱۲۳۱، وقال: ’’حدیث حسن صحیح‘‘، سنن نسائی ج۷ ص۲۹۵، ۶۹۶ ح۶۴۳۶)

اس کی سند حسن لذاتہ ہے۔ اسے ابن حبان (الموارد: ۱۱۰۹) اور ابن الجارود (۶۰۰) ن صحیح کہا ہے۔ بغوی نے ’’حسن صحیح‘‘ کہا۔ (شرح السنۃ ج۸ ص۱۴۲ ح۲۱۱۱)

امام ترمذی اور محدث بغوی وغیرہما نے اس کی ایک تشریح بیان کی ہے لیکن اس حدیث کے راوی عبدالوہاب بن عطاء فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ (آدمی) کہے: میں تجھے نقد دس کی اور ادھار بیس کی بیچتا ہوں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج۵ ص۳۴۳ و سندہ حسن)

یہی تحقیق قاضی شریح وغیرہ کی ہے اور اہل لغت میں خطابی، ابن قتیبہ کا بھی یہی قول ہے۔ محدثین میں امام نسائی اور ابن حبان کی بھی یہی تحقیق ہے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سودے میں دو سودوں کو سود قرار دیا گیا ہے۔ (مسند احمد ج۱ ص۳۹۳)

اس کی سند حسن ہے اور اسے ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ (الموارد: ۱۱۱۱، ۱۱۱۲)

اس کے راوی سماک بن حرب بھی وہی تشریح کرتے ہیں جو کہ عبدالوہاب بن عطاء کے قول میں مذکور ہے۔ (السنۃ للمروزی ص۵۴، مسند احمد ج۱ ص۳۹۸)

لہذا ثابت ہوا کہ نقد اور ادھار میں فرق کرنا جائز نہیں ہے۔

تفصیل کے لئے دیکھئے مولانا عبدالرحمن کیلانی کی بہترین کتاب ’’تجارت اور لین دین کے مسائل و احکام‘‘ (ص۱۱۱، ۱۱۲)

یہاں بطورِ تنبیہ اس بات کا ذکر کر دینا مناسب ہے کہ طاہر القادر (بریلوی) ن اپنی کتاب ’’بلاسود بنکاری (عبوری خاکہ)‘‘ میں (ص۷۹) پ ’’حیلہ اسقاط ربوا‘‘ کا باب باندھا ہے۔ یعنی سود کے ’’جائز‘‘ ہونے کا حیلہ!!

اس کے اگلے باب میں ’’دس کا نوٹ سال کے وعدے پر بارہ روپے میں بیچنا‘‘ کی سرخی کے ساتھ اپنے ممدوح ’’احمدرضا خان بریلوی‘‘ سے نقل کیا ہے کہ ’’اگر کوئی شخص دس روپے کا نوٹ دوسرے شخص کو سال بھر کے وعدے پر بارہ روپے میں بیچ دے تو جائز ہے۔‘‘ (ص۱۰۰)!

انا لله و انا الیه راجعون

آخر میں مختصراً عرض ہے کہ اگر نقد اور ادھار کا فرق نہ ہو تو سودا جائز ہے چاہے تقسیط (قسطیں) ہوں یا نہ ہوں۔ شریعت میں نفع میں کوئی خاص حد مقرر نہیں ہے بشرطیکہ ادھار میں اضافہ کرکے دوسرے شخص کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص218

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ