السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سائل نے محمد رفیع مفتی صاحب سے سوال کیا کہ ’’ہمارے ملک میں جو بھی کاروبار کیا جائے، اس کے لئے بنک سے سود پر قرض لینا پڑتا ہے۔ کیا سود دینا بھی اسلام میں اسی طرح ممنوع ہے جیسے کہ سود لینا؟
محمد رفیع صاحب کا جواب ہے کہ
’’بنک وغیرہ سے سود پر قرض لینا جائز ہے۔ اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ شریعت نے سود کھانے یعنی سود لینے سے منع کیا ہے، سود دینے سے نہیں۔ حدیث میں سود کھلانے والے کو بھی سود لینے والے ہی کی طرح مجرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ سود کھلانے والا کون ہے۔ بعض علما نے سود دینے والے ہی کو سود کھلانے والا قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ سود کھلانے والا دراصل وہ ایجنٹ ہے، جو سود خور کے لئے گاہک لاتا، اس کی نمائندگی کرتا اور اس کے سودی نظام کو چلاتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق لاہور۔ اپریل ۲۰۰۷ء)
حیرت کی بات ہے کہ سود خور کے لئے گاہک لانے والا اور اس کے سودی نظام کو چلانے والا تو حدیث کی نظر میں مجرم ہے مگر جس کے لئے گاہک لایا جا رہا ہے یعنی جو سود پر قرض فراہم کرے گا اس کا کام حلال ٹھہرا۔ یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ آپ مجھے بتلائیں کہ کیا رفیع صاحب کا فتویٰ درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محمد رفیع صاحب نے لکھا ہے کہ ’’شریعت نے سود کھانے یعنی سود لینے سے منع کیا ہے، سود دینے سے نہیں۔‘‘
عرض ہے کہ جب شریعت نے سود لینے سے منع کیا ہے تو پھر یہ فتویٰ ’’بنک وغیرہ سے سود پر قرض لینا جائز ہے۔ اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔‘‘ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ «لعن الله اکل الربا و موکله و شاهده و کاتبه» اللہ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے گواہ اور کاتب (لکھنے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔ (مسند احمد ج۱ ص۳۹۳ ح۳۷۲۵ و سندہ صحیح)
ی حدیث سند و متن دونوں لحاظ سے صحیح ہے اور اس میں سماک بن حرب پر جرح مردود ہے۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث: ۲۲ ص۱۷ تا ۲۳
اس حدیث کی سند اور مفہومی متن کو امام ترمذی (۱۲۰۶) اور ابن حبان (الاحسان ۵۰۲۵/۵۰۰۳) نے صحیح قرار دیا ہے۔ والحمدللہ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت دوسری سند کے ساتھ مختصراً صحیح مسلم میں موجود ہے۔ اس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور سود کھلانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (صحیح مسلم: ۱۵۹۷، و ترقیم دارالسلام: ۴۰۹۲)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: «هم سواء» یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔ (صحیح مسلم: ۱۵۹۸، و ترقیم دارالسلام: ۴۰۹۳)
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں تمام مدلسین کی معنعن روایات سماع یا متابعات وغیرہ پر محمول ہیں لہٰذا صحیحین کی روایات پر تدلیس کی جرح بالکل باطل اور مردود ہے۔ سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور سود کھلانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری: ۵۳۴۷)
ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ سود کھانے، سود کھلانے، سودی کھاتہ لکھنے والے اور سود کے گواہ سب ملعون ہیں لہٰذا سود لینے والے اور سود دینے والے مثلاً مروجہ تمام سودی بنک ایک جیسے مجرم ہیں۔
درج بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ بنک وغیرہ سے سود پر قرض لینا ناجائز اور حرام ہے اور اس میں زبردست شرعی قباحتہے کیونکہ شریعت نے ایسے تمام کاموں کو حرام قرار دیا ہے لہٰذا رفیع صاحب کا فتویٰ غلط اور باطل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب