سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) میدانِ جہاد اور ماں کی اجازت

  • 13592
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 1113

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے جاد کرنے کا بہت شوق ہے، مگر ماں اجازت نہیں دیتی۔ کیا ماں یا باپ کی اجازت کے بغیر جہاد ہو جائے گا؟ اگر ان میں سے ایک مان جائے ایک نہ مانے تو کیا پھر بھی جہاد ہو جائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر نفیر عام یعنی فرض عین نہ ہو تو جہاد بالسیف کے لئے مسلم والدین کی اجازت ضروری ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص (سیدنا) جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور جہاد کی اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمھارے والدین زندہ ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں! تو آپ نے فرمایا: تم ان (کی خدمت) میں جہاد کرو۔ (صحیح البخاری ج۱ ص۴۲۱ ح۳۰۰۴، صحیح مسلم: ۵/۲۵۴۹)

اس حدیث اور دیگر احادیث سے جمہور علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر والدین مسلمان ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر جہاد کرنا جائز نہیں الا یہ کہ جہاد فرض عین ہو اور نفیر عام کا حکم ہو۔ دیکھئے فتح الباری (ج۶ ص۱۴۰، ۱۴۱)

خلاصہ یہ کہ والدین کی رضا مندی ضروری ہے اس مسئلہ میں تفصیلی بحث ’’الجہاد فی سبیل اللہ‘‘ لعبد اللہ بن احمد الدکتور (ج۱ ص۹۰۔ ۹۲) وغیرہ میں موجود ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص211

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ