سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) جہاد قیامت تک جاری رہے گا

  • 13587
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 7891

سوال

(66) جہاد قیامت تک جاری رہے گا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خط لکھنے کی غرض و غایت اس مشہور حدیث نبوی کی تخریج دریافت کرنا ہے جو اکثر جہادی تنظیموں کے ذمہ داران سے سننے میں آتی ہے: ’’الجهاد ماضی الی یوم القیامة‘‘ اس کے بارے میں براہِ مہربانی ’’الحدیث‘‘ میں ہی جواب عطا فرما کر ممنون فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یزید بن ابی نشبہ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی سند سے ایک روایت مروی ہے۔ اس روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’والجهاد ماض منذ بعثنی اللہ الی ان یقاتل آخر امتیالدجال، لا یبطله جورجائز ولا عدل عادل‘‘ جب سے اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے، جہاد جاری رہے گا یہاں تک کہ میرا آخری امتی دجال سے جنگ کرے گا، اسے کسی ظالم (حکمران) کا ظلم اور عادل کا عدل باطل نہیں کرے گا۔ (سنن ابی داود: ۲۵۳۲، سنن سعید بن منصور: ۲۳۶۷)

یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ اس کا راوی یزید بن ابی نشبہ: مجہول ہے۔ (تقریب التہذیب: ۷۷۸۵، الکاشف للذہبی: ۶۴۷۵)

ی روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن واضح رہے کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿کتب علیکم القتال وهو کره لکم﴾ تم پر قتال فرض کیا گیا ہے اور یہ تمھیں ناپسند ہے۔ (سورۃ البقرہ: ۲۱۶)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الخیل معقود فی نواصیها الخیر الی یوم القیامة، الاجر والمغنم» گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر رکھی گئی ہے، اجر بھی ہے اور مالِ غنیمت بھی۔ (صحیح البخاری: کتاب الجہاد والسیر باب الجھاد ماض مع البر و الفاجر، ح۲۸۵۲ و صحیح مسلم ۱۷۳/۹۹، دارالسلام: ۴۸۴۹)

سلمہ بن نفیل الکندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«ولایزال من امتی امة یقاتلون علی الحق ……… حی تقوم الساعة»

اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قتال کرتا رہے گا……… حتی کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔ (سنن النسائی ۲۱۴/۶، ۲۱۵ ح۳۵۹۱، واسنادہ صحیح عمدۃ المساعی فی تحقیق سنن النسائی ج۲ ص۳۵۹ قلمی لراقم الحروف)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لن یبرح هذا الدین قائما، یقاتل علیه عصابة من المسلمین حتی تقوم الساعة»یہ دین (اسلام) ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت دین کے لئے قیامت تک قتال کرتی رہے گی۔ (صحیح مسلم: ۹۲۲ ادارالسلام: ۹۴۵۳ عن جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ)

ان احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔

ابن ہام (حنفی متوفی ۷۶۱ھ) لکھتے ہیں: ’’ولا شك ان اجماع الامة ان الجهاد ماض الی یوم القیامة لم ینسخ، فلا یتصور نسخه بعد النبی صلی الله علیه وسلم‘‘

اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رے گا، یہ منسوخ نہیں ہوا،پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات) ک بعد اس کی منسوخیت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح القدیر ج۵ ص۱۹۰ کتاب السیر)

مشہور جلیل القدر تابعی امام مکحول الشامی رحمہ اللہ (متوفی ۱۱۳ھ) فرماتے ہیں: 

’’ان فی الجنة لمائة درجة، مابین الدرجة الی الدرجة کما بین السماء والارض، اعدها الله للمجاهدین فی سبیل الله‘‘

بے شک جنت میں سو درجے ہیں، ایک درجے سے دوسرے درجے کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے، انہیں اللہ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے (مجاہدینض کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۰۴/۵ ح۱۹۳۵۳ و سندہ صحیح)

اس بہترین قول کی تائید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث موجود ہے۔ (دیکھئے البخاری: ۲۷۹۰)

خلاصۃ التحقیق:

جہاد قیامت تک، کافروں اور مبتدعین کے خلاف جاری رہے گا۔

جاد کی بہت سی قسمیں ہیں:

۱:             زبان کے ساتھ جہاد کرنا

۲:            قلم کے ساتھ جہاد کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«جاهدوا المشرکیین بایدیکم والسنتکم»

اپنے ہاتھوں اور زبانوں کے ساتھ مشرکوں سے جہاد کرو۔ (المختارۃ للضیاء المقدسی ج۵ ص۳۶ ح۶۴۲ واللفظ لہ، سنن ابی داود: ۲۵۰۴)

۳:            مال کے ساتھ جہاد کنا

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ ثم لا یتبعون ما انفقوا مناولا اذی لھم اجرھم عند ربھم﴾ جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اس خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ تکلیف پہنچاتے ہیں تو ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ (سورۃ البقرہ: ۲۶۲)

۴:            اپنی جان کے ساتھ جہاد کرنا (جہاد بالنفس)

اس کی دو قسمیں ہیں:

اول:         اپنے نفس کی اصلاح کرکے اسے کتاب و سنت کا مطیع و تابع کر دینا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:«المجاهد من جاهد نفسه» مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔ (الترمذی: ۱۶۲۱ وقال: ’’حدیث حسن صحیح‘‘ وسندہ حسن و صححہ ابن حبان/ موارد: ۱۶۲۴ والحاکم علی شرط مسلم ۷۹/۲ ووافقہ الذھبی)

دوم:    اللہ کے راستے میں قتال کرنا

اس کے بے شمار دلائل ہیں جن میں سے بعض حوالے اس جواب کے شروع میں گزر چکے ہیں۔ اگر شرائط اسلامیہ کے مطابق ہو تو سب سے افضل جہاد یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا جہاد افضل ہےڈ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من جاهد المشرکین بماله ونفسه» جو شخص مشرکوں سے اپنے مال اور اپنی جان (نفس) کے ساتھ جہاد کرے۔ پوچھا گیا: کون سا مقتول سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«من اهریق دہ وعقر جواده» جس کا خون (کافروں کے ہاتھوں) بہا دیا جائے اور اس کا گھوڑا کاٹ (کرمار) دیا جائے۔ (سنن ابی داود: ۱۴۴۹، وسندہ حسن)

ید رہے کہ دہشت گردی اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کا، جہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

امام ابو حاتم الرازی اور امام ابوزرعہ الرازی رحمہما اللہ فرماتے ہیں:

ہر زمانے (اور علاقے) میں ہم مسلمان حکمران کے ساتھ جہاد اور حجج کی فرضیت پر عمل پیرا ہیں…… جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نبی و رسول بنا کر) مبعوث فرمایا ہے، مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر (کافروں کے خلاف) جہاد جاری رہے گا۔ اسے کوئی چیز باطل نہیں کرے گی۔ ‘‘ [یعنی جہاد ہمیشہ جاری رے گا] (اصل السنۃ واعتقاد الدین: ۱۹، ۲۳، الحدیث حضرو: ۲ ص۴۳)

نیز دیکھئے الحدیث: ۳ ص۲۶

دکتور عبداللہ بن احمد القادری نے ’’الجهاد فی سبیل الله، حقیقته وغایته‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں ایک کتاب لکھی ہے، ساڑھے گیارہ سو سے زائد صفحات کی اس کتاب میں عبداللہ بن احمد صاحب جہاد کی قسمیں بیان کرتے ہیں:

جہاد معنوی = جہاد النفس، (نفس سے جہاد)، جہاد الشیطان (شیطان سے جہاد)، جہاد الفرقۃ و التصدع (تفرق اور انتشار کے خلاف جہاد)، جہاد التقلید (تقلید کے خلاف جہاد)، جہاد الاسرۃ (خاندانی رسومات کے خلاف جہاد) جہاد الدعوۃ (دین کی دعوت دینا) جہاد مادی = اعداد المجاھدین (مجاہدین کی تیاری)، الجہاد بالانفس والاموال (نفس اور مال کے ساتھ جہاد)، انشاء المصانع الجھادیۃ (جہادی قلعوں کی تیاری) (ج۱ ص۲۷۳)

لوگوں کو کتاب و سنت کی دعوت دینا، تقلید اور بدعات کے خلاف پوری کوشش کرنا بھی بہت بڑا جہاد ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قالراد علی اهل البدع مجاهد‘‘ پس اہل بدعت کا رد کرنے والا مجاہد ہے۔ (نقض االمنطق ص۱۲ ومجموع فتاوی ابن تیمیہ ۱۳/۴)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«کلمة عدل عند امام جائر» ظالم حکمران کے سامنے عدل (انصاف، حق) والی بات کہنا۔ (مسند احمد ۲۵۶/۵ ح۲۲۵۶۱ وسندہ حسن لذاتہ، دابن ماجہ: ۴۰۱۲)

مدرسے و مساجد تعمیر کرنا، لوگوں کو قرآن و حدیث علی فہم السلف الصالحین کی دعوت دینا، اس کے لئے تقریریں ومناظرے کرنا اور کتابیں لکھنا، یہ سب جہاد ہے۔

آخر میں دو حدیثیں پڑھ لیں:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مثل المجاهد فی سبیل اللہ، واللہ اعلم بمن یجاهد فی سبیله، کمثل الصائم القائم………»

اللہ کے راستے میں مجاہد کی مثال، اور اللہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے (مسلسل) روزہ دار اور (راتوں کو) قیام کرنے والے کی طرح ہے۔ (صحیح بخاری:۲۷۸۷)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«من خرج من الطاعة و فارق الجماعة ثم مات مات میتة جاهلیة، ومن قتل تحت رایة عمیة یغضب للعصبة ویقاتل للعصبة فلیس من امتی………»

جو شخص (خلیفہ کی) اطاعت سے نکل گیا اور (مسلمانوں کی) جماعت (یا اجماع) کی مخالفت کی تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے، اور جوش خص اندھے (جاہلیت کے) جھنڈے کے نیچے مارا گیا، وہ خاندان کے لئے غصہ اور قتال کرتا تھا تو یہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے…… الخ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن ۸۴۸/۵۴ دارالسلام، ۴۷۸۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص200

محدث فتویٰ

تبصرے