السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا اہل حدیث نے ازمنہ قدیم اور عصر حاضر میں جہاد بالسیف میں حصہ لیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اہل حدیث کے دو مفہوم بیان کئے ہیں:
(۱) محدثین کرام
(۲) حدیث رسول پر عمل کرنے والے اور تقلید نہ کرنے والے لوگ
دیکھئے مجموع فتاویٰ (ج۴ ص۹۵، ح۲۰ ص۴۰)
مخالفینِ اہل حدیث نے بھی محدثین کرام کو اہل حدیث کے لقب سے ملقب کیا ے، مثلاً دیکھئے مسعود احمد بی ایس سی کی کتاب ’’الجماعۃ القدیمۃ بجواب الفرقۃ الجدیدۃ‘‘ (ص۵،۷)
اس لحاظ سے تمام صحابہ کرام و تابعین ومن بعد ہم اہل حدیث تھے۔ صحابہ کرام و تابعین عظام کی جہادی زندگیاں کس شخص سے مخفی ہیں؟
بدر و احد کے غزوے ہوں یا یمامہ و قادسیہ کے معرکے، وہ ہر میدان میں دینِ اسلام پر اپنی جانیں نچھاور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بعد میں روایان حدیث بھی جہاد بالسیف میں پیچھے نہیں رہے۔ کتاب الجہاد کے مصنف اور شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک ایک سال میدان جنگ میں کفار سے جہاد میں مصروف رہتے تھے اور ایک سال حج کے دوران میں حدیث نبویہ کی روایت فرماتے تھے۔ (رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ)
تاتاریوں کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا قتال، صحیح و ثابت شدہ تاریخ میں محفوظ ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں علماء اہل حدیث اورعوام اہل حدیث کا مسلح جہاد ایک ایسا سنہری باب ے جس کی روشنی سے عصر حاضر بھی منور ہے۔
۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف جو فتویٔ جہاد شائع ہوا تھا۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ
’’درصورت مرقومہ (جہاد) فرض عین ہے۔‘‘ الخ، اس فتویٰ پر سب سے پہلے دستخط سرخیل اہل حدیث، المحدث الفقیہ سید محمد نذیر حسین (الدہلوی) رحمہ اللہ کے ہیں۔
دیکھئے ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ (ج۴ ص۱۷۹)
یہ دستخط اس وقت کے ہیں جب دوسرے لوگ خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے تھے اور کوئی خضر علیہ السلام کو انگریزوں کی فوج میں دیکھ رہا تھا۔ (شاندار ماضی ایضاً ص۲۸۰)
کوئی انگریزی حکومت کو ’’رحمدل گورنمنٹ‘‘ کہہ کر انگریزوں کے باغیوں سے برسرپیکار تھا۔ (تذکرہ الرشید ج۱ ص۷۵، ۷۶)
کوئی ہاتھ والی ’’تسبیح‘‘ کو ہمارا ہتھیار کہہ کر پکار رہا تھا۔ (ایضاً)
الغرض! ہر دور میں اہل حدیث کا ایک گروہ جہاد بالسیف میں مصروف رہا ہے۔ تحریر ہو یا تقریر اس کی حمایت میں کبھی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ دور میں اہل حدیث کے خلاف پروپیگنڈے کا توڑ اور حقائق واضح کئے جائیں تاکہ حق اور باطل کے درمیان تمیز ہوسکے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب