سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(53) خلع والی عورت کی عدت ایک مہینہ ہے

  • 13574
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1687

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو عورت اپنے شوہر سے خلع لے، اس عورت کی عدت کتنی ہے؟ کیا عام عورتوں کی طرح وہ نکاح ختم ہونے کے بعد تین حیض یا وضع حمل کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے؟ دلیل اور تحقیق سے جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس (رضی اللہ عنہ) کی بیوی (قولِ مشہور میں حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ وہ ایک حیض کی عدت گزاریں۔

روایت کی تخریج کے لئے دیکھئے سنن الترمذی (۱۱۸۵م، وقال: ’’حسن غریب‘‘) سنن ابی داود (۲۲۲۹) اور المستدرک للحاکم (۲۰۶/۲ ح۲۸۲۵ و صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی فی تلخیصہ)

اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے اور اسے امام عبدالرزاق کا مرسلاً بیان کرنا علت قادحہ (وجۂ ضعف) نہیں بلکہ زیادتِ ثقہ کی مقبولیت کے اصول سے یہ روایت مرسلا اور متصلاً دونوں طرح صحیح ہے۔

سنن الدارقطنی (ج۳ ص۲۵۵ ح۳۵۸۹) میں صحیح سند کے ساتھ ہشام بن یوسف کی بیان کردہ اس روایت میں ’’فجعل النبی صلی اللہ علیه وسلم عدتها حیضة ونصفا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت  ڈیڑھ حیض مقرر فرمائی۔ اس کی سند بھی حسن لذاتہ ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ خلع لینے والی عورت کی عدت ایک مہینہ ہے۔

ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا نے (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں) خلع لیا پھر انھوں نے (سیدنا) عثمان (رضی اللہ عنہ) سے عدت کے بارے میں پوچھا تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: تم پر کوئی عدت نہیں ہے الا یہ کہ وہ (شوہر) تمھارے پاس تھا اور تم نے تازہ تازہ خلع لیا ہے تو ایک حیض عدت گزارے گی۔ (سیدنا) عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی اتباع کرتا ہوں جو آپ نے مریم المغالیہ (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں فرمایا تھا۔ (سنن النسائی ج۶ ص۱۸۶۔ ۱۸۷ ح۳۵۲۸ و سندہ حسن واللفظ لہ، سنن ابن ماجہ: ۲۰۵۸، وقال الحافظ ابن حجر فی فتح الباری ۳۹۹/۹ تحت ح۵۲۷۳: ’’واسنادہ جید‘‘)

مریم المغالیہ سے مراد ثابت بن قیس رضی اللہ عنہا کی وہ بیوی ہے، جس نے ان سے خلع لیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک حیض کی عدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔

دیکھئے الاصابہ (جلد واحد ص۱۷۶۶)

عین ممکن ہے کہ مریم المغالیہ سے مراد حبیبہ بنت سہل کے علاوہ کوئی اور ہو۔ واللہ اعلم

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ربیع (بنت معوذ رضی اللہ عنہا)  نے اپنے شوہر سے خلع لیا پھر اس کا چچا (سیدنا) عثمان (رضی اللہ عنہ) کے پاس گیا تو انھوں نے فرمایا: وہ ایک حیض کی عدت گزارے گی۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ پہلے یہ فتویٰ دیتے تھے کہ وہ تین حیض کی عدت گزارے گی، جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ فتویٰ دیا تو پھر وہ اسی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور فرماتے تھے:

وہ ہم میں سے بہتر ہیں اور سب سے زیادہ علم والے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج۵ ص۱۱۴ ح۱۸۴۵۶، وسندہ صحیح)

اس سے معلوم ہوا کہ کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے سابقہ فتوے سے رجوع کرلیا تھا۔

امام نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ص۱۱۴ ح۱۸۴۵۵، وسندہ صحیح)

اس مسئلے میں حنفی وغیرہ علماء کہتے ہیں کہ خلع والی عورت مطلقہ کی طرح تین مہینے یا وضع حمل کی عدت گزارے گی لیکن درج بالا حدیث، خلیفۂ راشد کے فیصلے اور صحابی رسول کے فتوے کی وجہ سے راجح یہی ہے کہ وہ ایک مہینہ عدت گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص192

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ