سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) عقیقہ ساتویں دن کرنا

  • 13566
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1082

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں مسئلہ عقیقہ پر اختلاف ہے۔ ایک فریق کا موقف ہے کہ عقیقہ صرف ساتویں روز ہی ہوسکتا ہے اور عقیقہ کے جانور کے لئے ان شروط کا ہونا ضروری ہے جن کا قربانی کے جانور کے لئے ہونا ضروری ہے مثلاً مسنہ، ہر قسم کے عیب سے پاک، موٹا تازہ ہونا وغیرہ۔ دوسرے فریق کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت تو ساتویں روز اور اکیسویں روز ہے لیکن اگر طاقت نہ ہو تو زندگی میں جب بھی طاقت ہو کیا جا سکتا ہے اور عقیقہ کے جانور کے لئے ان شروط کا ہونا ضروری نہیں جن کا قربانی کے لئے ہونا ضروری ہے البتہ اللہ کی راہ میں اچھی چیز قربان کرنی چاہیے۔

عرض ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ ماہنامہ شہادت میں جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔ جواب ضروری ہے، ہمارے ہاں اس مسئلہ پر کافی اختلاف ہے۔ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ساتویں روز عقیقہ کرنے والی روایت صحیح ہے۔ اسے ابوداود (۲۸۳۸) ترمذی (۱۵۲۲) اور احمد (۷/۵) وغیرہم نے حسن بصری عن سمرہ بن جندب کی سند سے نقل کیا ہے۔ ترمذی نے کہا ’’حسن صحیح‘‘ اور ابن الجارود (۹۱۰) حاکم اور ذہبی (المستدرک ۲۳۷/۴) وغیرہم نے صحیح کہا ہے۔ (نیلالمقصود ۶۶۵/۲)

جس روایت میں چودہ اور اکیس دن کا ذکر ہے وہ اسماعیل بن مسلم کی وجہ سے ضعیف ہے اور قتادہ کا عنعنہ بھی ہے۔ دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (۳۰۳/۹) ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد از نبوت عقیقہ کیا۔ (عبدالرزاق فی المصنف ۳۲۹/۴ ح۷۹۶۰)

اس کا راوی عبداللہ بن محرر متروک ہے لہٰذا یہ روایت سرے سے مردود ہے۔

بہتر اور مستحب یہی ہے کہ ساتویں دن ہی عقیقہ کیا جائے تاہم حدیث: «کل غلام مرتهن بعقیقته» ہر بچہ اپنے عقیقے کی وجہ سے رہن (معلق) رہتا ہے۔ (المنتقی لابن الجارود: ۹۱۰ و سندہ حسن) کی روشنی میں اس کے بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم

قربانی اور عقیقہ کا باہمی تعلق ہے، لہٰذا حدیث: «من احب ان ینسک عن ولده» جو شخص اپنے لڑکے کی طرف سے قربانی کرنا چاہئے۔ الخ (سنن النسائی ۱۶۲/۷۔ ۱۶۴ ح۴۲۱۷ و سندہ حسن) کی رو سےبہتر یہی ہے کہ عقیقہ کا جانور بھی قربانی کے جانور جیسا ہو، البتہ قربانی والی شروط ضروری نہیں ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص184

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ