سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) مسجد عائشہ (تنعیم) سے عمرہ

  • 13559
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 4606

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران اگر عمرہ کرنے کا ارادہ ہو تو کیا احرام باندھنے کے لئے مسجد عائشہ جانا ہوتا ہے۔ میرے والدین اور ایک چھوٹی ہمشیرہ فوت ہوچکے ہیں۔ والدین نے اپنی زندگی میں حج کیا تھا لیکن چھوٹی ہمشیرہ اس سے محروم رہی۔ آپ سے پوچھنا تھا کہ مرحومین کو ثواب، پہنچانے کے لئے قیام مکہ کے دوران عمرہ کیا جا سکتا ہے یا اس کے مساوی کوئی اور بھی عبادت ہے جیسے ان کے نام لے کر فقط طواف کرنا جس کے ذریعہ سے مرحومین کو عمرہ کے برابر یا اس سے زیادہ ثواب پہنچایا جاسکے؟

(۲)           اکثر لوگ سعودی عرب کفن کو آب زم زم سے تر کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے ہیں۔ کیا ایسا کفن پہننے پر قبر کے عذاب سے نجات مل سکتی ہے؟ کیا اسلام میں آبِ زم زم سے کفن کو تر کرنے کی اجازت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(عمرے کے بارے میں) راجح یہی ہے کہ میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کیا جائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا تنعیم سے عمرہ کرنا ایک استثنائی صورت ہے جسے عام سمجھ لینا صحیح نہیں ہے۔

سلف صالحین سے مروجہ دور کے عمروں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ جزیرۃ العرب اور حجاز کے مستند علماء کی بھی یہی تحقیق ہے کہ تنعیم والے عمروںکا کوئی شرعی ثبوت نہیں ے جیسا کہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی کتاب ’’التحقیق والا یضاح لکثیر من مسائل الحج و العمرۃ‘‘ ص۱۸، ۱۹ وغیرہ سے ظاہر ہے۔

تاہم عورت حیض کی وجہ سے طواف قدوم وغیرہ نہ کرسکے تو وہ بعد میں تنعیم سے طواف کر سکتی ہے جیسا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے ظاہر ہے۔ آپ ان تنعیمی عمروں سے بچیں اور کثرت سے طواف کریں۔ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ «الطواف حول البیت مثل الصلوة الا انکم تتکلمون فیه، فمن تکلم فیه فلایتکلم الا بخیر» (سنن الترمذی کتاب الحج باب ماجاء فی الکلام فی الطواف ح۹۶۰ ج۳ ص۱۲۲، بتحقیقی)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ کا طواف نماز کی طرح ہے۔ سوائے اس کے کہ تم اس میں باتیں کرتے ہو۔ پس جو بات کرے تو صرف اچھی بات ہی کرے۔ یہ روایت حسن ہے۔ اسے ابن خزیمہ (۲۲۲/۴ ح۲۷۳۹) اور ابن حبان (االموارد: ۹۹۸) ن صحیح کہا۔

عطاء بن السائب سے اس کے راوی حماد بن سلمہ (الحاکم ۲۶۶/۲) سفیان الشوری (الحاکم ۴۵۹/۱) اور سفیان بن عیینہ وغیرہم ہیں۔

اس روایت کی بہت سی سندیں ہیں۔ امام نسائی نے ایسی روایت صحیح سند کے ساتھ عن رجل ادرک النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر موقوفاً روایت کی ہے۔ (۲۲۲/۵ ح۲۹۲۵ بتحقیقی)

اور صحیح سند کے ساتھ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ

’’اقلوا الکلام فی الطواف و انما انتم فی الصلوة

طواف میں باتیں کم کرو کیونکہ تم نماز میں ہوتے ہو۔ (سنن النسائی ح۲۹۲۶ بتحقیقی)

لہٰذا آپ بکثرت طواف کریں اور والدین وغیرہ کے لئے خوب دعائیں کریں۔

اگر میقات سے باہر نکل کر دوبارہ مکہ آئیں تو والدین اور ہمشیرہ کی طرف سے عمرہ کرسکتے ہیں۔ حدیث: «فحج عن ابیک واعتمر» پس اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرو، اس کی دلیل ہے۔ (دیکھئے سنن ابی داود: ۱۸۱۰، و الترمذی: ۹۳۰، وقال: ’’حسن صحیح‘‘ وابن ماجہ: ۲۹۰۶، والنسائی: ۲۶۲۲، ۲۶۳۸، وابن خزیمہ: ۳۰۴۰، و ابن حبان: ۹۶۱، والحاکم ۴۸۱/۱ و صححہ علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی، وقواہ احمد بن حنبل)

(۲)           احرام کو زم زم کے پانی سے دھونے کے جواز کا کوئی ثبوت مجھے معلوم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ عمل بدعت ہو لہٰذا اس سے مکمل طور پر بچنا چاہئے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص169

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ