السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تین مساجد: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقضیٰ کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ولا تبار شروهن و انتم عاکفون فی المساجد﴾ اور اپنی بیویوں سے اس وقت جماع نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہو۔ (البقرۃ: ۱۸۷)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہا کہ ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔ جمہور علماء نے اس آیت کریمہ سے استدلال کرکے ہر مسجد میں اعتکاف کو جائز قرار دیا ہے۔ دیکھئے شرح السنۃ للبغوی (ج۶ ص۳۹۴) مرعاۃ المفاتیح (ج۷ ص۱۶۵)
اس کے مقابلے میں بعض لوگوں کا یہ موقف ہے کہ صرف تین مساجد میں ہی اعتکاف جائز ہے: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ! ان کے نزدیک دیگر مساجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے دعویٰ کی تائید میں ایک روایت پیش کرتے ہیں:
’’سفیان بن عیینة عن جامع بن ابی راشد عن ابی وائل قال قال حذیفة ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: «لا اعتکاف الا فی المساجد الثلاثة»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: تین مساجد کے علاوہ (کسی مسجد میں) اعتکاف نہیں ہے۔ (المعجم للاسماعیلی ۷۲۰/۳/۴، مشکل الآثار ۲۰/۴، المحلی لابن حزم ۱۹۴/۵، مسئلہ: ۶۳۳)
یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ اس کی تمام اسانید میں سفیان بن عیینہ راوی موجود ہیں جو کہ عن سے روایت کرتے ہیں۔ کسی ایک سند میں بھی ان کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ثقہ حافظ اور مشہور مدلس تھے۔
حافظ ابن حبان لکھتے ہیں: ’’وهذا لیس فی الدنیا الا لسفیان بن عیینة وحده فانه کان یدلس ولا یدلس الا عن ثقة متقن۔‘‘ دنیا میں اس کی مثال صرف سفیان بن عیینہ ہی اکیلے کی ہے، کیونکہ آپ تدلیس کرتے تھے مگر ثقہ متقن کے علاوہ کسی دوسرے سے تدلیس نہیں کرتے تھے۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۱ ص۹۰، دوسرا نسخہ ج۱ ص۱۶۱)
امام ابن حبان کے شاگرد امام دارقطنی وغیرہ کا بھی یہی خیال ہے۔ (دیکھئے سوالات الحاکم للدراقطنی ص۱۷۵)
امام فیان عن عیینہ درج ذیل ثقات سے بھی تدلیس کرتے تھے:
(۱) علی بن المدینی (۲) ابو عاصم (۳) اور ابن جریج (دیکھئے الکفایۃ فی علم الروایہ للخطیب ص۳۶۲، نعمت الاثاثہ لتخصیص الاعتکاف بالمساجد الثلاثہ ص۷۹)
ایک دفعہ سفیان نے (امامض زہری سے حدیث بیان کی بعد میں پوچھنے والوں کو بتایا کہ میں نے یہ زہری سے نہیں سنی اور نہ اس سے سنی ہے جس نے زہری سے سنا ہے۔
’’لم اسمعه من الزهری ولا ممن سمعه من الزهری حدثنی عبدالرزاق عن معمر عن الزهری‘‘ مجھے عبدالرزاق نے عن معمر عن الزہری یہ حدیث سنائی ہے۔ (علوم الحدیث للحاکم ص۱۰۵، الکفایہ ص۳۵۹، مقدمہ ابن الصلاح ص۹۵،۹۶، اختصار علوم الحدیث ص۵۱، تدریب الراوی ج۱ ص۲۲۴، فتح المغیث ج۱ ص۱۸۳)
اس روایت کی سند ابراہیم بن محمد السکونی السکری کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ایک دفعہ آپ نے عمرو بن دینار (ثقہ) سے ایک حدیث بیان کی۔ پوچھنے پر بتایا کہ
’’حدثنی علی بن المدینی عن الضحاک بن مخلد عن ابن جریج عن عمرو ابن دینار‘‘ مجھے علی بن مدینی نے عن الضحاک بن مخلد عن ابن جریج عن عمرو بن دینار کی سند سے یہ حدیث سنائی۔ (فتح المغیث ۱ ص۱۸۴)
[یہ روایت صحیح سند کے ساتھ الکفایۃ ص۳۵۹۔ ۳۶۰ میں مطولا موجود ہے۔]
حدیث اور اصول حدیث کے عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ یہ سند ابن جریج عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن جریج کا ضعفاء سے تدلیس کرنا بہت زیادہ مشہور ہے۔ (دیکھئے الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص۵۵، ۵۶)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابن عیینہ جن ثقہ شیوخ سے لدیس کرتے تھے ان میں بعض بذات خود مدلس تھے مثلاً ابن جریج وغیرہ۔ ابن عیینہ کے اساتذہ میں امام زہری، محمد بن عجلان اور سفیان ثوری وغیرہم تدلیس کرتے تھے لہٰذا امام سفیان بن عیینہ کا عنعنہ مشکوک ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ آپ صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرتے تھے، محل نظر ہے۔
سفیان نے محمد بن اسحاق کے بارے میں امام زہری کا قول نقل کیا کہ
’’اما انه لا یزال فی الناس علم ما بقی هذا‘‘ لوگوں میں اس وقت تک علم باقی رہے گا جب تک یہ (محمد بن اسحاق بن یسار) زندہ ہیں۔ (تاریخ یحیی بن معین ج۱ ص۵۰۴، دوسرا نسخہ ۱۵۷ ت ۹۷۹ من زوائد عباس الدوری، الکامل ابن عدی ج۶ ص۲۱۱۹، میزان الاعتدال ج۳ ص۴۷۲)
اس روایت میں سفیان کے سماع کی تصریح نہیں ہے۔
سفیان نے یہ قول ابوبکر الہذلی سے سنا تھا۔ (الجرح و التعدیل ج۷ ص۱۹۱)
لٰہذا یہ ثابت ہوا کہ سفیان بن عیینہ نے الہذلی سے تدلیس کی ہے۔
یہ الہذلی متروک الحدیث ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب ۳۹۷)
سفیان بن عیینہ نے حسن بن عمارہ (متروک / تقریب التہذیب ص۷۱) سے بھی تدلیس کی ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ (ص۱۵۱) خلاصہ یہ کہ امام سفیان بن عیینہ کا صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرنا محل نظر ہے، یہ اکثریتی قاعدہ تو ہوسکتا ے ےکلی قاعدہ نہیں ہوسکتا۔
محدثین کرام نے ثقہ تابعی کی مرسل روایت اس خدشہ کی وجہ سے رد کر دی ہے کہ ہوسکتا ہے، اس نے غیرصحابی سے سنا ہو۔ اگر غیرصحابی (یعنی تابعی وغیرہ) سے سنا ہے تو ہوسکتا ہے کہ راوی ثقہ ہو یا ضعیف، لہٰذا مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔ بعینہ اسی طرح ’’لاعتکاف‘‘ والی روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:
۱: ہوسکتا ہے کہ سفیان عیینہ نے یہ روایت ثقہ سے سنی تھی یا غیرثقہ سے؟ اگر غیرثقہ سے سنی ہے تو مردود ہے۔
۲: اگر ثقہ سے سنی تھی تو ہوسکتا ہے یہ ثقہ بذات خود مدلس ہوں، جیسا کہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔ جب سفیان کا استاد بذات خود مدلس ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس نے ضرور بالضرور یہ روایت اپنے استاد سے ہی سنی تھی؟ جب اس کے سماع کی تصریح معلوم کرنا ناممکن ہے تو یہ خدشہ قوی ہے کہ اس کی بیان کردہ روایت اس کے ضعیف استاد کی وجہ سے ضعیف ہو لہٰذا اس روایت کو شیخ ابوعمر عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کا حافظ ذہبی کی پیروی کرتے ہوئے، ’’صحیح عندی‘‘ کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اصول حدیث کے سراسفر خلاف ہے۔
جناب نورستانی صاحب اور جناب نجم اللہ سلفی صاحب حفظہما اللہ کی طرف راقم الحروف نے اردو زبان میں ایک خط لکھا تھا جس کا جواب کافی عرصے کے بعد عربی زبان وغیرہ میں ملا۔
اس جواب کےملتے ہی راقم الحروف نے اس کا اردو میں جواب لکھ کر جناب نورستانی صاحب، جناب نجم اللہ صاحب اور بذریعہ خط کتابت جناب ڈاکٹر شجاع اللہ صاحب (لاہوری) کی خدمت میں ارسال کر دیا تھا۔
بعد میں شیخ نورستانی صاحب کی کتاب ’’نعمة الا ثاثة لتخصیص الاعتکاف بالمساجد الثلاثة‘‘ ملی جس میں میرے پہلے خط کو ٹوٹی پھوٹی عربی میں ترجمہ کرکے مع جواب شائع کر دیا اور میرا دوسرا (تازہ) خط اس کتاب سے غائب ہے۔ میں نے لکھا تھا:
’’بسم الله الرحمان الرحیم
السلام علیکم و رحمة الله و برکاته امابعد:
جناب نورستانی صاحب اور جناب نجم اللہ صاحب کے نام!
آپ کا جواب ملا ہے، اس سلسلے میں چند معروضات ییش خدمت ہیں:
(۱) آپ اپنی مستدل سند میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے سماع کی تصریح ثابت نہیں کرسکے ہیں اور نہ کوئی متابعت پیش کرسکے ہیں۔
(۲) امام ابن عیینہ رحمہ اللہ ثقہ مدلسین مثلاً امام ابن جریج رحمہ اللہ وغیرہ سے بھی تدلیس کرتے تھے لہٰذا ان کا عنعنہ مشکوک ہے۔ اس کا آپ دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
(۳) ابوبکر الہذلی کے سلسلے میں آپ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ کا قول الہذلی سے بھی سنا ہے اور امام زہری سے بھی۔ حالانکہ الجرح و التعدیل یا کسی کتاب سے یہ ثابت نہیں کہ انھوں نے خود یہ قول امام زہری سے سنا ہے۔
الہذلی کے قصہ میں درج ذیل باتیں مدنظر رکھیں:
۱۔ سفیان نے محمد بن اسحاق کو زہری کے پاس دیکھا۔
۲۔ ابن اسحاق نے زہری سے ان کے دربان کی شکایت کی۔
۳۔ زہری نے دربان کو بلا کر سمجھایا۔
۴۔ الہذلی نے زہری کا قول سفیان کو سنایا: ’’لا یزال بالمدینة علم……‘‘ الخ
ان میں اول الذکر تین شقوں میں سفیان کا سماع ہے آخری شق میں نہیں، لہٰذا بعض راویوں کے اختصار سے آپ کا استدلال صحیح نہیں ہے۔
ابو قلابہ الرقاشی سے قطع نظر ’’اعلم بغزا‘‘ والی روایت اور ہے، لایزال بالمدینۃ والی اور، اسے المزید فی متصل الاسانید سے سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ آپ میرے سابق خط کے المشار الیہا صفحات کا دوبارہ مطالعہ کریں۔
[ابوقلابہ عبدالملک بن محمد الرقاشی کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ حسن الحدیث تھے کیونکہ جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔ روایت مذکورہ میں محمد بن جعفر بن یزید اور محمد بن ابراہیم المزنی کی توثیق مطلوب ہے۔]
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی تدلیس کے بارے میں چند مزید فوائد پیش خدمت ہیں:
۱: حاتم الرازی نے سفیان بن عیینہ عن ابن ابی عروبہ والی ایک روایت کے بارے میں فرمایا: اگر یہ (روایت) صحیحہوتی تو ابن ابی عروبہ کی کتابوں میں ہوتی اور ابن عیینہ نے اس حدیث میں سماع کی تصریح نہیں کی اور یہ بات اسے ضعیف قرار دے رہی ہے۔ (علل الحدیث ۳۲/۱ ح۶۰، الفتح المبین ص۴۱)
۲: ابن ترکمانی حنفی نے کہا: ’’ثم ان ابن عیینة مدلس وقد عنعن فی السند‘‘
پھر اس میں ابن عیینہ مدلس ہیں اور انھوں نے عن سے سند بیان کی ہے۔ (الجوہر النقی ۱۳۸/۲)
نیز دیکھئے المستدرک للحاکم (۵۳۹/۲ ح۳۹۸۵)
(۴) جناب نجم اللہ صاحب کا امام ذہبی و علامہ البانی کی تقلید میں صحیحین پر طعن کرنا کہ ’’اور شروط سماع نہ ہوں تو بھی روایت مردود ہوگی‘‘ غلط و مردود ہے۔
صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے بلکہ ان کی صحت پر اجماع ہے۔ صرف یہی دلیل اس باتے کے لئے کافی ہے کہ صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع یا متابعت پر محمول ہیں۔
(۵) امام سفیانبن عیینہ کی معنعن روایت بلحاظِ سند ضعیف و بلحاظ متن منکر ہے لہٰذا اسے ’’صحیح عندی‘‘ کہنا غیر صحیح ہے۔
(۶) آپ دونوں حضرات سے درخواست ہے کہ اس ضعیف و معلول روایت کو لوگوں میں پھیلا کر امت میں فتنہ پیدا نہ کریں۔ وما علینا الا ابلاغ زبیر علیزئی ۹۹۔۱۰۔۱۴‘‘
اس خط کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔
مختصر عرض ہے کہ سفیان بن عیینہ کی بیان کردہ روایت: ’’لا اعتکاف الا فی المساجد الثلاثة‘‘ بلحاظ سند ضعیف ہے۔
اس میں اور بھی بہت سی علتیں ہیں مثلاً اس کے متن میں اختلاف و تعارض ہے، موقوف و مرفوع ہونے میں بھی اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنیاد وہ نامعلوم شخص ہے جس نے سفیان بن عیینہ کو یہ حدیث سنائی ہے۔ جمہور علماء اسلام ک بعض اعتراضات ’’نعمت الاثاثه‘‘ نامی کتاب میں بھی موجود ہیں۔ فاضل مولف نے ان اعتراضات کے ناکام جوابات دینے کی کوشش کی ہے لیکن حق وہی ہے جو جمہور علماء اسلام نے قرآن مجید کی آیت کریمہ: ﴿وانتم عاکفون فی المساجد﴾ سے سمجھا ہے۔
یاں بطور نکتہ عرض ہے کہ ’’المساجد‘‘ کی تخصیص تین مساجد: (مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصی) کے ساتھ کرنا تاریخی طور پر بھی غلط ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کا مسجد اقصی میں اعتکاف کرنا کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بیت المقدس (جہاں مسجد اقصیٰ موجود ہے) اس زمانے میں صلیبی پولسی عیسائیوں کے قبضہ میں تھا۔ اسے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ۱۵ھ میں فتح کیا۔ (دیکھئے البدایہ و النہایہ ج۷ ص۵۶ وغیرہ)
لہٰذا اس آیت کریمہ کے شانِ نزول میں مسجد حرام، مسجد نبوی کےساتھ وہ تمام مساجد شامل ہیں جو کہ عہد نبوی میں موجود تھیں۔ مساجد کا لفظ کم از کم تین (یا اس سے زیادہ) مسجدوں پر مشتمل ہے۔
شانِ نزول کے وقت مسجد اقصی کے خروج سے یہ خود بخود ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام مساجد بشمول مساجد ثلاثہ میں اعتکاف میں بیٹھنا جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب