السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان المبارک کے مہینہ میں روزہ دار کو اگر کان، ناک یا آنکھ میں دوائی ڈالنے کی ضرورت پڑ جائے تو کیا روزے کی حالت میں ڈال سکتا ہے یا نہیں؟ اگر دائمی مریض نہیں ڈال سکتا تو کیا روزے نہ رکھے؟ اسی طرح انجکشن کے بارے میں بھی وضاحت فرمائیں کہ کس کے لئے اجازت ہے اور کس کے لئے نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چونکہ ناک، کان میں دوائی ڈالنے یا ٹیکہ لگانے سے انسان کے جسم میں دوائی داخل ہو جاتی ہے اور اس میں اس کی رضا مندی بھی شامل ہوتی ہے لہٰذا روزہ مشکوک ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’الافطار مما دخل ولیس مما خرج والوضوء مما خرج ولیس مما دخل۔‘‘ اگر کوئی چیز داخل ہو جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور نکلنے سے نہیں ٹوٹتا۔ اگر کوئی چیز باہر نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور داخل ہونے سے نہیں ٹوٹتا۔ (الاوسط لابن المنذر ۱۸۵/۱ ث۸۱ و سندہ صحیح)
یہاں چیز سے مراد کھانا، پانی اور دوائی وغیرہ ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’الصوم مما دخل ولیس مماخرج‘‘ الخ جسم میں جو داخل ہو جائے تو روزہ (ٹوٹ جاتا) ہے اور نکلے تو نہیں ٹوٹتا۔ (صحیح البخاری ج۱ ص۲۶۰ قبل ح۱۹۳۸)
ملوم ہوا کہ اگر کوئی چیز مثلاً کھانا، پانی اور دوائی وغیرہ، کوئی شخص اپنی مرضی سے اپنے جسم میں داخل کرے یا کروائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
اس عموم سے ٹیکہ لگانے یا ناک، کان میں دوائی ڈالنے کا کوئی استثناء، میرے علم میں نہیں ہے لہٰذا احتیاط یہی ہے کہ جو شخص مریض ہے وہ بیماری کی حالت میں روزہ نہ رکھے اور بعد میں اس کی قضا کرلے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب