السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت رات کے آخری حصے میں مزدلفہ سے لوٹی اور اس نے رمی جمار کے لیے اپنے بیٹے کو اپنی طرف سے وکیل مقرر کر دیا، حالانکہ وہ خود بھی رمی کر سکتی ہے۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فتویٰ دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب عطا فرمائے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمرات کو کنکریاں مارنا مناسک حج میں سے ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا اور آپ نے خود بھی کنکریاں ماریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامِةِ ذِکْرِ اللّٰهِ» (سنن ابي داؤد، المناسک، باب فی الرمل، ح: ۱۸۸۸، وجامع الترمذي، الحج، باب ماجاء کيف ترمی الجمار، ح: ۹۰۲، ومسند احمد: ۶/ ۶۴، واللفظ له)
’’بیت اللہ کے طواف، صفا و مروہ کی سعی اور رمی جمرات کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کوزندہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔‘‘
جمرات کو کنکریاں مارنا عبادت ہے جس سے انسان اپنے رب تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ عبادت الہی کا مظاہر میں سے ہے کہ انسان اس جگہ ان کنکریوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر کے لیے پھینکتا ہے۔ اس لئے یہ محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت جلوہ نمائی ہے، اس لیے انسان کو نہایت خشوغ خضوع کے ساتھ جمرات کو کنکریاں مارنی چاہئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اول وقت رمی جمرات افضل ہے یا آخر وقت میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آخر وقت میں اطمینان، خشوع اور حضور قلب کے ساتھ کنکریاں مارنا ممکن ہو تو پھر آخر وقت میں افضل ہے کیونکہ اس خوبی کا نفس عبادت سے تعلق ہے اور جس چیز کا نفس عبادت سے تعلق ہو، وہ عبادت کے زمان ومکان سے مقدم ہوتی ہے، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُُ الْأَخْبَثَانِ» (صحيح مسلم، المساجد، باب کراهة الصلاة بحضرة الطعام، ح: ۵۶۰)
’’کھانے کی موجودگی میں نمازجائز ہے نہ اس وقت جب انسان کو بول و براز کا تقاضا ہو۔‘‘
چنانچہ انسان قضائے حاجت کی وجہ سے نماز کو اول وقت سے مؤخر کر نے کا مکلف ہے یا جب کھانے کی ضرورت ہو اور کھانا موجود ہو تو اس وقت بھی نماز کو مؤخر کر ے گااور پہلے کھانا کھائے گا۔ اب صورت یہ ہے کہ یا تو وہ اول وقت کنکریاں مارے لوگوں کے ازدحام میں مشقت کے ساتھ شدید ہجوم کے عالم میں، جب کہ جان بچانے کی بھی فکر ہو، یا پھر اسے آخر وقت حتیٰ کہ رات تک مؤخر کر دے اور اطمینان و حضور قلب کے ساتھ کنکریاں مارے تو یہ تاخیر کرنا اس کے لئے افضل ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کے کمزور افراد کو رخصت عطا فرما دی تھی کہ وہ رات کے آخری حصے میں مزدلفہ سے چلے جائیں تاکہ انہیں اس ہجوم کی وجہ سے تکلیف نہ ہو طلوع فجر کے بعد سب لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے جس کے وقوع پذیر ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رمی جمار میں کسی کو وکیل بنانا جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ...﴿١٩٦﴾... سورة البقرة
’’اور اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو ۔‘‘
اس مسئلے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں، لہٰذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ رمی جمرات عبادت ہے اور جس مرد یا عورت کو اس کی قدرت ہو اس کے لیے کسی کو اپنی طرف سے نائب بنانا جائز نہیں۔ بلکہ اس کے لیے واجب ہے کہ وہ خود کنکریاں مارے، البتہ اگر کوئی مرد یا عورت بیمار ہو یا کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے حمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کی طرف سے کسی کو وکیل مقرر کیا جا سکتا ہے۔ یہ عورت جس نے قدرت کے باوجود خود رمی نہیں کی، میری رائے میں اس کے لیے احتیاط یہ ہے کہ اس ترک واجب کی وجہ سے فدیے کا ایک جانور ذبح کر کے مکہ کے فقرا میں تقسیم کر دے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب