السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کہتا ہے کہ قیامت کے دن حساب کتاب کے بعد اگر کوئی میاں بیوی دونوں جنت چلے جائیں تو وہ دونوں ساتھ نہیں رہیں گے علیحدہ علیحدہ رہیں گے۔ اور دنیا والی عورت قطعاً اس دنیا والے شوہر کو نہیں ملے گی حتی کہ نبی علیہ السلام کی بیویاں بھی ساتھ نہیں رہیں گی جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ دنیا کی بیوی جنت میں خاوند کو ملے گی یا نبی علیہ السلام کی بیویاں ان کو ملیں گی تو وہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیتوں کا منکر ہے یعنی وہ منکر قرآن ہیں: بقرہ آیت ۲۰۰، ۲۰۲، ۲۸۶، (آل) عمران ۲۵، ۳۰، ۱۹۵، نساء ۳۲، ۱۲۴، ابراہیم ۵۱، نحل ۹۷، المومن ۴۰، الصفت ۴۹، رحمن ۵۶، واقعہ ۳۶ وغیرہ وغیرہ۔
اس کے علاوہ بھی قرآن کی آیات ہیں لیکن میں نے متخصر لکھ دی۔ اور کہتا ہے کہ وہاں ایسی بیویاں ہوں گی جن کو ہاتھ تک نہیں لگا ہوگا۔ کہتا ہے کہ مندرجہ بالا آیتوں میں تخصیص ہے کہ ساتھ نہیں رہے گی بیوی کا عمل زیادہ ہو جائے تو پھر بیوی کو کیا مگے گا۔ لہٰذا آیتوں کی مخالفت لازم آتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید کی جن آیات کا اس شخص نے ذکر کیا ہے ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی مجھے یہ مسئلہ نہیں ملا کہ اگر میاں بیوی دونوں جنت میں چلے جائیں تو بیوی اپنے شوہر کو نہیں ملے گی۔ آپ اس شخص سے مطالبہ کریں کہ وہ ایک آیت مع متن اور ترجمہ لکھے جس سے اس کا یہ مزعومہ مسئلہ صاف ثابت ہوتا ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ادخُلُوا الجَنَّةَ أَنتُم وَأَزوٰجُكُم تُحبَرونَ ﴿٧٠﴾... سورة الزخرف
تم اور تمھاری بیویاں جنت مں داخل ہو جاؤ۔ (الزخرف: ۷۰، الکتاب ص۲۹۸)
(وازواجکم) زوجاتکم (تفسیر الجلالین ص۶۵۴)
اگر مخاطبین مرد ہوں تو ازواج سے مراد زوجات (بیویاں) ہیں اور اگر خطاب عورتوں سے ہو تو ہر عورت کا زوج (شوہر) مراد ہے۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہے کہ اہل ایمان جنتیوں کا ’’میاں بیوی‘‘ والا رشتہ جنت میں بھی قائم رہے گا۔ جن آیات میں آیا ہے کہ انھیں نہ کسی جن نے چھوا ہوگا اور نہ کسی انسان نے تو اس سے دو باتیں مراد ہیں:
اول: یہ جنتی حوریں ہیں۔ دیکھئے سورۃ الرحمن آیت: ۷۲ تا ۷۴ اور یہی راجح ہے۔
دوم: یہ دنیا کی عورتیں ہیں جنھیں دوبارہ زندہ کرنے کے بعد جنتیوں کے لئے اعلیٰ طریقے پر تیار کیا جائے گا۔ مشہور تابعی امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’هن من نساء أهل الدنیا خلقهن الله فی الخلق الآخر………‘‘ وہ دنیا کی عورتیں ہیں جنھیں اللہ دوسری (بہترین) خلقت پر پیدا فرمائے گا…… (البعث والنشور للبیہقی: ۳۷۸ و سندہ صحیح)
امام ابو یعلیٰ الموصلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حدثنا إسماعیل بن عبداللہ القرشی : ثنا أبو الملیح عن میمون بن مهران قال: خطب معاویة أم الدرداء رضي اللہ عنها فأبت أن تتزوجه، قالت: سمعت ابا الدرداء رضی الله عنه یقول قال رسول الله صلی الله علیه وسلم :«المراة الخر ازواجها» ولست ارید بابی الدرداء بدلا۔‘‘ ہمیں اسماعیل بن عبداللہ (بن خالد الرقی) القرشی نے حدیث بیان کی: ہمیں ابو الملیح (الحسن بن عمر الرقی) نے حدیث بیان کی، وہ میمون بن مہران سے بیان کرتے ہیں کہ معاویہ (بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ام الدرداء رحمہا اللہ کو شادی کا پیغام بھیجا تو انھوں نے ان کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دیا، ام الدرداس نے فرمایا: میں نے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اپنے آخری شوہر کے ساتھ ہوگی۔ اور میں ابوالدرداء کے بدلے میں کسی اور کو نہیں چاہتی۔ (المطالب العالیہ: ۱۷۳۱، و سندہ حسن، اتحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصیری وقال: ’’ھذا اسناد رجالہ ثقات‘‘ نیز دیکھئے السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ۲۷۵/۳ ح۱۲۸۱)
ابویعلیٰ کی سند کے ساتھ یہ روایت تاریخ دمشق لابن عساکر (۱۱۶/۷۴) مں بھی موجود ہے۔ اس میں ام المجتبیٰ فاطمہ بنت ناصر العلویہ کا مقام (میری تحقیق میں) صدق ہے اور باقی سند صحیح ہے۔ اس کی اور بھی کئی سندیں ہیں۔
امام ابویعلیٰ کی بیان کردہ اس حدیث کی سند حسن ہے اور راویوں کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے:
(۱) اسماعیل بن عبداللہ بن خالد بن یزید العبدری الرقی السکری القرشی: امام دارقطنی نے کہا: ثقہ (تریخ بغداد ۲۶۲/۶ و سندہ صحیح، تاریخ دمشق لابن عساکر ۲۹۵/۸)
ابو حاتم الرازی نے کہا: صدوق [وہ سچا ہے] (الحجرح و التعدیل ۱۸۱/۲)
ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا۔ (۱۰۱/۸)
حافظ ذہبی نے کہا: ’’الشیخ الفقیہ العالم ……… وکان صاحب حدیث و اتقان‘‘ شیخ فقیہ عالم…… اور آپ حدیث والے اور متقن (ثقہ) تھے۔ (سیر اعلام النبلاء ۱۲۸/۱۲)
اور کہا: ’’قاضی دمشق فصدوق یتحجهم‘‘ قاضی دمشق، سچے تھے، جہمی تھے۔ (میزان الاعتدال ۲۳۶/۱)
الضیاء المقدسی نے المختارہ میں ان سے حدیث لی ہے۔ (ج۳ ص۳۸۵ ح۱۱۷۹)
حافظ ابن حجر العسقلانی نے کہا: ’’صدوق رمی لرای جهم‘‘
سچے ہیں، آپ پر جہمیت کا الزام ہے۔ (تقریب التہذیب: ۴۵۶)
اس کا رد کرتے ہوئے تحریر تقریب التہذیب (۱۳۵/۱) میں لکھا ہوا ہے:
’’بل ثقة، الخ‘‘ بلکہ وہ ثقہ ہیں۔
جہمیت کے الزام کا ذکر ابو الحسن علی بن الحسن بن علان الحرانی الحافظ نے کیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ابن ابی دواداالمعتزلی نے انھیں شام کا قاضی بنایا تھا جیسا کہ محمد بن فیض الغسانی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے۔ جہمیت کا الزام کئی وجہ سے مردود ہے:
اول: یہ عقیدہ صراحت کے ساتھ اسماعیل بن عبداللہ سے ثابت نہیں ہے۔
دوم: جمہورکی توثیق کے بعد اس جرح کا کوئی وزن نہیں ہے۔
سوم: ابن ابی دوادکا کسی کو قاضی بنانا اس بات کی حتمی دلیل نہیں کہ وہش خص ضروری جہمی تھا۔ خلاصہ یہ کہ اسماعیل بن عبداللہ بن خالد الرقی حسن الحدیث ہیں۔
اسماعیل بن عبداللہ بن زراہ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
(۲) ابو الملیح حسن بن عمر الرقی: ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب: ۱۲۶۶)
(۳) میمون بن مہران الجزری: ثقہ فقیہ ہیں۔ (تقریب التہذیب: ۷۰۴۹)
یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مومنوں کی بیویاں جنت میں بھی ان کی ہی بیویاں ہوں گی۔
حافظ ابوالشیخ الاصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حدثنا احمد بن اسحاق الجوهری قال: ثنا اسماعیل بن زرارة قال: ثنا ابو الملیح الرقی عن میمون بن مهران عن ام الدرداء عن ابی الدرداء ان النبی صلی الله علیه وسلم قال: «ان المرأة لآخر أزواجها»‘‘
ہمیں احمد بن اسحاق الجوہری نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اسماعیل بن (عبداللہ بن) زرارہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو الملیح الرقی نے حدیث بیان کی، وہ میمون بن مہران سے وہ ام الدرداء (الصغریٰ بجیمہ رحمہا اللہ) سے وہ (سیدنا) ابوالدرداء (رضی اللہ عنہ) سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ عورت اپنے آخری شوہر کے سساتھ ہوگی۔ (طبقات المحدثین باصہبان ج۴ ص۳۶ ح۸۰۶)
اس حدیث کی سند حسن ہے اور اس کے راویوں کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے:
(۱) احمد بن اسحاق الجوہری: شیخ ثقہ ہیں… اچھی حدیثیں بیان کرنے والے ہیں……… (طبقات المحدثین ۳۶/۴)
(۲) اسماعیل بن عبداللہ بن زرارہ الرقی: صدوق ہیں، ازدی (ضعیف) نے بغیر کسی دلیل کے ان پر کلام کیا ہے۔ (تقریب التہذیب: ۴۵۷)
ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ (۱۰۰/۸)
خطیب بغدادی نے ان کے تذکرے میں دارقطنی کو توثیق نقل کی ہے۔ (۲۶۲/۶ ت۳۲۹۲)
خلاصہ یہ کہ اسماعیل مذکور حسن الحدیث ہیں۔
(۳) ابو الملیح الرقی اور میمون بن مہران کا تذکرہ گزر چکا ہے اور ام الدرداء الصغریٰ بجیمہ رحمہا اللہ ثقہ فقیہہ ہیں۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: ۸۷۲۸)
یہ سند حسن الذاتہ ہے اور سابقہ حسن سند کے ساتھ مل کر صحیح لغیرہ ہے۔
سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہوکر فرمایا: «فأنت زوجتي فی الدنیا والآخرة» پس تو دنیا اور آخرت میں میری بیوی ہے۔ (صحیح ابن حبان، الاحسان: ۷۰۵۳ [۷۰۹۵] و سندہ صحیح، و صححہ الحاکم ۱۰/۴ ح۶۷۲۹ ووافقہ الذہبی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور عائشہ (رضی اللہ عنہا کی تصویر) کو ریشم کے لباس میں لاکر فرمایا: ’’هذہ زوجتک فی الدنیا والآخرة‘‘ یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں۔ (صحیح ابن حبان، الاحسان: ۷۰۵۲ [۷۰۹۴] و سندہ حسن)
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’إني الأعلم أنها زوجتة فی الدنیا والآخرة‘‘ بے شک میں جانتا ہوں کہ وہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دنیا اور آخرت میں بیوی ہیں۔ (صحیح بخاری: ۳۷۷۲)
ان صحیح دلائل کے باوجود اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جنت میں آپ کے ساتھ نہیں رہیں گی یا دنیا والی عورت قطعاً اس ک دنیا والے جنتی شوہر کو نہیں ملے گی‘‘ تو یہ شخص سخت ملحد، گمراہ، ضال مضل اور بے دین ہے۔
درج بالا تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ مردوں کو تو جنت میں اُن کی بیویاں، جنتی عورتیں اور حوریں ملیں گی۔ جبکہ جنتی عورتوں کو ان کے جنتی شوہر ملیں گے۔ جن عورتوں کے شوہر جنتی نہ ہوں گے تو انھیں جس طرح اللہ چاہے گا دوسرے جنتی انسان بطورِ شوہر ملیں گے۔
قارئین کرام! دیکھیں کس طرح منکرینِ حدیث اپنے سارے لاؤ لشکر کے ساتھ قرآن کے در پردہ صحیح احادیث اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملے کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ آدم اور حوا علیہما السلام کی تخلیق ایک افسانہ ہے تو کبھی کہتے ہیں کہ انسان ایک جرثومے سے ترقی کرتے ہئے یعنی ڈارون یہودی کی خیالی تھیوری نظریۂ ارتقاء کے مطابق اس مقام تک پہنچا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جنت میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں گی۔ وغیرہ، عرض ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جنت میں آپ کی بیویاں نہیں ہوں گی تو کیا یہ امتیوں کی بیویاں بنیں گی؟ ازواجِ مطہرات تو امتیوں کی مائیں ہیں۔ ماں کس طرح بیوی بن سکتی ہے؟ جو شخص یہ کہتا ہے کہ نبی کی بیوی اور امتیوں کی ماں کسی امتی کی بیوی بنے گی تو یہ شخص کائنات کا بدترین کافر اور گستاخ ہے۔
مسلمانو! آنکھیں کھولو اور غور سے دیکھو کہ کفار، مرتدین اور منافقین کس طرح دن رات اپنے سارے وسائل کے ساتھ دینِ اسلام کی بنیادوں پر حملے کر رہے ہیں۔ کہاں ہے اللہ اور رسول سے محبت اور دینی غیرت و حمیت؟
صحیح بخاری، صحیح مسلم اور صحیح حدیثوں پر حملہ کرنے والوں کا منہ بند کرنا اور ان کا قلع قمع کرنا اس دور میں اہم ترین فریضہ ہے۔ قربان جائیں! امیر المومنین ہارون الرشید العباسی رحمہ اللہ کے، جب ایک شخص نے بیوقوفی سے ایک حدیث پر اعتراض کر دیا تو عباسی خلیفہ نے فرمایا: بعض ملحدین نے اسے یہ کلام بتایا ہے۔ (تاریخ بغداد: ۲۴۴/۵ و سندہ صحیح، کتاب المعرفۃ و التاریخ: ۱۸۱/۲، ۱۸۲، و سندہ صحیح)
ملوم ہوا کہ ہارون الرشید اس شخص کو ملحد (کافر) سمجھتے تھے جو حدیث پر اعتراض کرے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں:
’’فکل من لم یناظر اهل الالحاد والبدع مناظرة تقطع دابرهم، لم یکن اعطی الاسلام حقه و لا وفی بموجب العلم و الایمان ولا حصل بکلامه شفاء الصدور و طمانینة النفوس ولا افاد کلامه العلم و الیقین۔‘‘
ہر وہ شخص (عالم جس کے پاس متعلقہ علم ہے) جو ملحدین و مبتدعین سے مناظرہ کرکے ان کی جڑیں نہیں کاٹتا تو اس نے اسلام کا حق ادا نہیں کیا اور نہ علم و ایمان کے واجبات کو پورا کیا ہے، اس کے کلام سے سینوں کو شفاء اور دلوں کو اطمینان حاصل نہیں ہوا اور نہ اس کا کلام علم و یقین کا فائدہ دیتا ہے۔ (درء تعارض العقل و النقل ج۱ ص۳۵۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب