السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ لوگ مزدلفہ کا راستہ بھول گئے اور جب وہ مزدلفہ کے قریب پہنچے تو رک گئے اور انہوں نے رات کے ایک بجے مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں اور پھر وہ اذان فجر کے وقت مزدلفہ میں داخل ہوئے، تو کیا ان پر کچھ لازم ہے؟ فتویٰ عطا فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان لوگوں پر کچھ لازم نہیں کیونکہ وہ اذان فجر کے وقت مزدلفہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے صبح کی نماز یہاں اندھیرے میں ادا کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«مَنْ شَهِدَ صَلَاتَنَا هٰذِهِ، وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّی ند ْفَعَ، وَقَدْ وَقَف قبل ذلکَ بِعَرَفَةَ َ لَيْلًا اَوْ نَهَارًا فَقَدْ تَمَّ حَجُّهُ وَقَضٰی تَفَثَه» (سنن ابي داؤد، المناسک باب من لم يدرک عرفة، ح: ۱۹۵۰، وجامع الترمذي، الحج، باب ماجاء فی من ادرک الامام بجمع فقد ادرک الحج، ح: ۸۹۱ واللفظ له)
’’جو ہماری اس نماز میں شریک ہو جائے اور ہمارے ساتھ وقوف کر کے لوٹے اور اس سے پہلے رات یا دن کو کسی وقت اس نے عرفہ میں وقوف کر لیا ہو تو اس نے اپنے حج کو مکمل کر لیا اور اپنے میل کچیل کو دور کر دیا۔‘‘
البتہ انہوں نے یہ غلطی کی کہ نماز کو آدھی رات سے مؤخر کر دیا جب کہ عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ثابت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب