السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(دوسرا سوال: آپ کے) نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا معراج کے موقع پر سینہ چاک کیا گیا اور عیسیٰ کا نہیں کیا گیا تو نبی میں غلطیاں تھیں عیسیٰ میں نہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر سفر بہت لمبا اور عظیم الشان ہو تو اس کے لیے خاص تیاریاں ہوتی ہیں۔ ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج ایسا عظیم الشان سفر ہے کہ آپ سات آسمانوں سے اوپر سدرۃ المنتہی تک تشریف لے گئے اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو نچلے آسمان پر اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔ اس عظیم سفر کے لئے یہ عظیم تیاری کروائی گئی۔
یاد رہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ دو فرشتوں نے آپ ک بچپن میں چاک کرکے پانی (آبِ زمزم) سے دھویا تھا اور اس پر ختم نبوت کی مہر لگا دی تھی۔ (دیکھئے مسند امام احمد ج۴ ص۱۸۴ ح۱۷۶۴۸، وسندہ حسن، نیز دیکھئے صحیح مسلم: ۱۶۳)
آپ آخری نبی (خاتم النبیین) اور رحمۃ للعالمین تھے اس لئے آپ کے بچپن میں فشتوں (جبرائیل علیہ السلام وغیرہض نے آپ کا سینہ دھویا تھا تاکہ پ کے دل میں کسی نیک انسان کے لئے کوئی غصہ اور نفرت نہ ہو پھر لمبے سفر پر اس کی تجدید کرا دی گئی۔ یہ ظاہر ہے کہ جس کا سینہ اُس کے بچپن میں ہی فرشتوں نے دھو کر صاف و شفاف کر دیا تھا وہ انسان بلاشک و شبہ اس انسان سے افضل ہے جس کا سینہ دھویا نہیں گیا۔ اس سے بھی آخری نبی کی افضیلت ہی ثابت ہو رہی ہے۔
مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر نبی معصوم اور پاک ہوتا ہے، اس سے کسی قسم کی غلطی کا صدور نہیں ہوتا جس غلطی سے حد یا فسق لازم آئے۔ اجتہادی لغزش اگر ثابت ہو تو علیحدہ بات ہے جس کا ایک اجر ضرور ملتا ہے۔ اس کے برعکس پولسی عیسائیوں کا انبیاء اور رسولوں کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟ درج ذیل عبارت میں اس کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں:
پولسی عیسائیوں کی کتاب سلاطین میں لکھا ہوا ہے: ’’کیونکہ جب سلیمان بڈھا ہوگیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اُس کا دل خداوند اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اُسکے باپ داؤد کا دل تھا۔ کیونکہ سلیمان صدانیوں کی دیوی عستارات اور عمونیوں کے نفرتی ملکوم کی پیروی کرنے لگا۔ اور سلیمان نے خداوند کے آگے بدی کی اور اس نے خداوند کی پوری پیروی نہ کی جیسی اُسکے باپ داؤد نے کی تھی۔‘‘ (سلاطین اب ۱۱ فقرہ: ۴ تا ۶، عہد نامۂ قدیم ص۳۴۰)
عبارتِ مذکورہ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کو غیر اللہ کی عبادت کرنے والا یعنی مشرک قرار دیا گیا ہے حالانکہ وہ سچے موحد رسول تھے اور شرک و کفر سے بے حد و حساب دور تھے۔
عیسائیوں اور یہودیوں کی کتاب خروج میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اُترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہوکر اُس سے کہنے لگے کہ اُٹھ ہمارے لئے دیوتا بنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکالکر لایا کیا ہوگیا۔ ہارون نے اُن سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں سونے کی بالیاں ہیں اُنکو اُتار کر میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ سب لوگ اُنکے کانوں سے سونے کی بالیاں اُتار اُتار کر اُنکو ہارون کے پاس لے آئے۔ اور اُس نے اُنکو اُنکے ہاتھوں سے لیکر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے اے اسرائیل یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکالکر لایا۔ ی دیکھ کر ہارون نے اُسکے آگے ایک قربانگاہ بنائی اور اُس نے اِعلان کر دیا کہ کل خداوند کے لئے عید ہوگی۔ اور دوسرے دن صبح سویرے اُٹھ کر انہوں نے قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزرانیں۔ پھر اُن لوگوں نے بیٹھ کر کھایا پیا اور اُٹھکر کھیل کود میں لگ گئے۔‘‘ (خروج باب ۳۲ فقرہ: ۱ تا ۶، عہدنامۂ قدیم ص۸۴)
عبارت مذکورہ میں سیدنا ہارون علیہ السلام کو بت بنانے والا اور بت کی عبادت کرنے والا بنا کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ سیدنا ہارون علیہ السلام اللہ کے سچے نبی اور موحد تھے۔ آپ شرک اور بت پرستی سے بے حد دور تھے۔
سموئیل نامی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اور شام کے وقت داؤد اپنے پلنگ پر سے اُٹھ کر بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا اور چھت پر سے اس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہایت خوبصورت تھی۔ تب داؤد نے لوگ بھیج کر اس عورت کا حال دریافت کیا اور کسی نے کہا کیا وہ العام کی بیٹی بت سبع نہیں جو حتی اورِیاہ کی بیوی ہے۔ اور داؤد نے لوگ بھیجکر اُسے بلا لیا۔ وہ اُسکے پاس آئی اور اُس نے اُس سے صحبت کی (کیونکہ وہ اپنی ناپاکی سے پاک ہوچکی تھی)۔ پھر وہ اپنے گھر کو چلی گئی۔ اور وہ عورت حاملہ ہوگئی………‘‘ (سموئیل ۲ ب۱۱ فقرہ: ۲ تا ۵، عہد نامۂ قدیم ص۳۰۳)
اس عبارت میں سیدنا داود علیہ السلام سچے رسول اور نبی کو اورِیاہ نامی آدمی کی بیوی سے زنا کرنے والا ظاہر کیا گیا ہے حالانکہ سیدنا داود علیہ السلام اس تہمت سے بالکل بری اور پاک ہیں۔
تین خداؤں کا عقیدہ رکھنے والے اور پولس کو رسول ماننے والے عیسائیوں نے اپنی ان ’’الہامی آسمانی‘‘ عبارات میں سیدنا ہارون علیہ السلام، سیدنا داود علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کے بارے میں جھوٹ بولتے ہوئے ایسی غلطیاں گھڑ رکھی ہیں جن کا صدور عام نیک آدمی سے بھی نہیں ہوتا جبکہ نبی و رسول کے بارے میں تو ایسی غلطیوں کا تصور بھی محال اور ناممکن ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب