کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین کہ ایک لڑکی مسماۃ مدیحہ بی بی بنت محمد شوکت ، عباسی خاندان ،سکنہ بیروٹ، ضلع ایبٹ آباد ،نے ایک لڑکے احمد ولد لیاقت ،موچی خاندان ،سکنہ بیروٹ، ضلع ایبٹ آباد، کے ساتھ گھر سے فرار ہو کر ،بغیر اذنِ ولی کے نکاح کر کےعدالت میں اپنی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ لڑکی کا والد اس نکاح پر راضی نہیں ہے اور چاہتا ہے کہ طلاق یا فسح نکاح کے ذریعے لڑکی کو واپس لایا جائے جبکہ لڑکی کا خاوند احمد طلاق دینے پر راضی نہیں ہے۔ شریعت کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ مندرجہ بالا نکاح ختم کرانے کا کیا طریقہ ہے اور اس کام کو کس طرح سے انجام دیا جائے نیز اس ضمن میں اکابر خاندان و ارکان جرگہ کی ذمہ داری بھی واضح کی جائے۔؟
ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا شرعا درست نہیں ہے اوراگر ایسا کوئی نکاح ہو جائے تو وہ منعقد نہیں ہوتا ہے۔ایسے نکاح کو عدالت یا پنچائت کے ذریعے ختم کروا دینا چاہئے۔سیدہ عائشہ فرماتی ہیں۔
جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کر لیا پس اس کا نکاح باطل ہے، پس اس کا نکاح باطل ہے ، پس اس کا نکاح باطل ہے۔ اور اگر مرد نے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لئے ہیں تو اس عورت کو مہر ادا کیا جائے کیونکہ مرد نے اس کی فرج کو حلال کیا ہے (اور جدائی ڈلوا دی جائے گی ) اور اگر عورت کے ولی آپس میں جھگڑا کریں تو اس وقت حاکم اس عورت کا ولی ہو گا جس کا کوئی ولی نہ ہو''
مذکورہ بالا روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا ہے۔اور اگر ایسا ہوجائے تو اس کی علیحدگی کروا دی جائے گی۔اورخاندان کو بھی اس میں مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔
مزید تفصیل کے لئے یہ لنک ملاحظہ فرمائیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب