سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) جادو واقعی حقیقت ہے؟ رسول اللہﷺ پر جادہ کا اثر ہوا تھا؟

  • 13515
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 6844

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

متعدد احادیث کے مطابق مشہور ہے کہ رسول اللہﷺ پر جادو کا اثر ہو گیا تھا۔ اگر ان احادیث کو قبول کر لیا جائے تو پھر آیت ﴿يـأَيُّهَا الرَّسولُ بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ وَإِن لَم تَفعَل فَما بَلَّغتَ رِسالَتَهُ وَاللَّهُ يَعصِمُكَ مِنَ النّاسِ...﴿٦٧﴾... سورة المائدة

میں حفاظت کا وعدہ کیا ہوا؟ علاوہ ازیں ان احادیث کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے منصبِ رسالت کی توہین لازم آتی ہے اور شریعت کے جملہ احکام پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور پھر یہ بھی خارج از امکان نہیں ہوتا کہ کوئی آیت ذہن سے اتر گئی ہو یا کسی خود ساختہ کلام کو کلامِ الہٰی فرض کر لیا گیا ہو اور پیش کردہ شرعی قانون اللہ تعالیٰ کا فرمودہ نہ ہو۔ بلکہ سحر کی فسوں کاری کا کرشمہ ہو۔ یہ وہ خدشات ہیں جن کی بنیاد پر دور قدیم کے عقل گزیدہ معتزلہ اور عصر حاضر کے منکرین حدیث کہتے ہیں کہ احادیث قرآن سے متصادم ہیں۔ قرآن میں کفار یہ الزام بیان کیا گیا ہے کہ نبی ایک سحر زدہ آدمی ہے۔ ﴿ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْراً﴾ مگر جادو والی احادیث اس الزام کی تصدیق کرتی ہیں کہ واقعی رسول اللہﷺ پر جادو کا اثر ہو گیا تھا۔ ازراہ مہربانی اس سوال کا کافی اور شافی جواب تحریر فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں تک ان احادیث صحیحہ کی کثرت اور تاریک حیثیت کا تعلق ہے اور رسول اللہﷺ پر سحر کا اثر ہونے کا واقعہ ہے تو یہ واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے۔ مگر ان نازک علمی سوال کا جواب رقم کرنے سے پہلے جادو کی حقیقت پر گفتگو نامناسب نہ ہوگی، اس لیے پہلے جادو کی تعریف اور متاثر ہونے نہ ہونے پر گفتگو کرنا چاہوں گا۔

۱: جادو کی تعریف: جادو کو عربی میں ’’السحر‘‘ کہا جاتا ہے۔ القاموس الوسیط میں سحر کے ذیل میں اس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

السحر کل امر یخفی سببه ویتخیل علی غیر حقیقة ویجری مجری التمویة والخداع۔ (القاموس الوسیط، ج۱، ص۴۱۹)

۲۔ ہر وہ چیز جس کے حصول میں شیطانی ذرائع سے مدد لی جائے جس کا ماخذ انتہائی لطیف ودقیق ہو۔ جادو، ٹوٹکا، نظر بندی (کسی چیز کا خلافِ حقیقت نظر آنا) (۳) دھوکہ، ملمع سازی، (۴) دل کشی، سحر انگیزی اس کی جمع اسحار اور سحور ہیں۔ (القاموس الوحید، ص:۷۵)

۳۔ ۔۔۔۔ المنجد میں ہے سَحَرَ یَسْحَرُ سِحْراً۔ السحر مصدر ہے۔ وہ چیز جس کا ماخذ لطیف وباریک ہو۔ جھوٹ کو سچ بنا کر دکھانا، حیلہ بازی، فساد، ہر وہ چیز جس کے حصول میں شیطانی تقریب سے مدد لی جائے۔

اسحار وسحور۔ السحر الکلامی کلام کی رنگین بیانی جو دلوں پر گہرا اثر ڈال کر خیالات میں انقلاب پیدا کر دے اور جادو کا اثر دکھائے۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص۱۴۷)

عرب کے قدیم شاعر بھ یسحر کا معنی دھوکہ اور ساحر کو دھوکہ باز کہتے ہیں۔ جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے

ان تسئلینا فیما نحن فاننا عصافیر من ھذا الانام المسحر۔ [لسان العرب]

’’اگر تو ہم سے پوچھے کہ ہم کس حال میں ہیں تو ہم دھوکہ دی گئی مخلوق کی چڑیا ہیں۔‘‘

امام ابن کثیر سحر کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اِنَّ السِّحْرَ فِی اللُّغَة عِبَارَة عَما لَطُفَ وَخَفِیٰ سَبَبُه۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص۱۴۷)

’’سحر یعنی جادو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو بہت لطیف اور باریک ہو اور ظاہر میں انسان کی نگاہوں سے اس کے اسباب پوشیدہ ہوں۔‘‘

جادو ایک حقیقت ہے:

۱۔ ۔۔۔ ابو عبداللہ القرطبیؒ فرماتے ہیں:

عندنا ان السحر حق وله حققة یخلق اللہ عندہ مایشاء خلافا للمعتزله۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۱ ص۱۴۷)

جادو حق ہے اور وہ ایک حقیقت ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ جب اللہ کو منظور ہوتا ہے وہ جادو کے وقت جو چاہتا ہے پیدا کر دیتا ہے۔ گو معتزلہ اور ابو اسحاق الاسفرائینی اس کے قائل نہیں۔

۲۔ الشیخ ابو مظہر یحییٰ بن محمد بن ہییرہ فرماتے ہیں:

اجمعوا علی ان السحر له حقیقة الا ابا حنیفة۔ (ابن کثیر ج۱، ص۱۴۴)

’’علمائے اسلام کا اجماع ہے کہ جادو کی حقیقت ہے لیکن ابو حنیفہؒ اس کے قائل نہیں۔‘‘

۳۔۔۔۔ امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:

حَكَى أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيُّ فِي تَفْسِيرِهِ «3» عَنِ الْمُعْتَزِلَةِ أَنَّهُمْ أَنْكَرُوا وُجُودَ السِّحْرِ، قَالَ: وَرُبَّمَا كَفَّرُوا مَنِ اعْتَقَدَ وَجُودَهُ، قَالَ: وَأَمَّا أَهْلُ السُّنَّةِ فَقَدْ جَوَّزُوا أَنْ يَقْدِرَ السَّاحِرُ أَنْ يَطِيرَ فِي الْهَوَاءِ وَيَقْلِبَ الْإِنْسَانَ حِمَارًا، وَالْحِمَارَ إِنْسَانًا إِلَّا أَنَّهُمْ قالوا: إن الله يخلق الأشياء عند ما يقول الساحر تلك الرقى۔ (المنحد،س،ح،ر،ص: ۴۶۰)

معتزلہ جادو کے وجود کے قائل نہیں بلکہ ان سے بعض لوگ بعض دفعہ اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ جو شخص جادو کا وجود مانتا ہے اس کو کافر کہتے ہیں۔ مگر اہل سنت جادو کے وجود کے قائل نہیں یہ مانتے ہیں کہ جادوگر اپنے جادو کے زور سے ہوا پر اڑ سکتے ہیں۔ اور انسان کو بظاہر گدھار اور گدھے کو بظاہر انسان بنا ڈالتے ہیں۔ مگر کلمات اور منتر کے وقت ان ساری چیزوں کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ آسمان اور تاروں کو اہل سنت مؤثر نہیں مانتے۔

۴۔ ۔۔۔ الشیخ عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی قرآن کی آیت  مَا یُفَرِّقُوْنَ بِه بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِه کے تحت لکھتے ہیں:

وفی ھذا دلیل علی ان السحر لہ حقیقة وانه یفسر باذن اللہ ای بارادة اللہ۔ (یسیر الکریم الرحمن، ج۱، ص۵۷)

کہ یہ آیت دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے اور جادو اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ہی نقصان پہنچاتا ہے بذاتِ خود نہیں۔ (تفسیر الکریم الرحمن، ج۴)

۵۔ ۔۔۔ امام نووی فرماتے ہیں:

والصحیح ان له حقیقة وبه قطع الجمھور وعلیه عامة العلماء ویدل علی الکتاب والسنة الصحیحة المشھورة۔ (شرح مسلم )

’’صحیح یہ ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے۔ جمہور کا یہی فیصلہ ہے۔ عام علمائے اسلام اس کے قائل ہیں۔قرآن مجید اور احادیث صحیحہ اور مشہورہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔

۶۔۔۔ امام شوکانی رقم طراز ہیں:

مذھب اھل السنة وجمھور علماء الامة اثبات السحر وان له حقیقة کحقیقة غیرہ من الاشیاء خلافا من انکر ذالك ۔۔۔۔ وقد ذکراللہ تعالیٰ فی کتابه۔ (نیل الاوطار، ج۷، باب ما جاء فی حد الساحر، ص۱۸۸)

’’اہل سنت اور جمہور علمائے امت کے مذہب کے مطابق جادو کا اثبات ہے اور جس طرح دوسری اشیاء کی حقیقت ہے، اسی طرح جادو کی حقیقت بھی مسلم ہے۔‘‘

۷۔۔۔۔ قاضی علی بن ابی العز فرماتے ہیں:

قد تنازع العلماء فی حقیقة السحر وانواعه والاکثرون یقولون انه قد یوثر فی موت المسحور ومرضه من غیر وصول شیء ظاهر الیه۔ (شرع عقیدہ طحاویة: ص۷۶۴)

’’جادو اور اس کی اقسام علماء کے ہاں متنازعہ فیہ ہیں تاہم اکثر علمائے اسلام کہتے ہیں کہ کبھی کبھار جادو مسحور (سحر زدہ) کی موت اور اس کی مرض کا باعث بن جاتا ہے بغیر کسی ظاہر چیز کے جو اس تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘

جادو اور قرآن:

۱۔۔۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جادو کا عمل حضرت ابراہیمؑ سے بھی پہلے حضرت صالحؑ کےعہد میں بھی جاری تھا۔ جیسا کہ سورۃ الشعراء میں ہے کہ حضرت صالح کی تبلیغ کےجواب میں قوم نے کہا:

﴿قالوا إِنَّما أَنتَ مِنَ المُسَحَّرينَ ﴿١٥٣﴾... سورة الشعراء

’’کہنے لگے تم پر تو کسی نے جادو کیا ہے۔‘‘

۲۔ ۔ ۔﴿قالَ أَلقوا ۖ فَلَمّا أَلقَوا سَحَر‌وا أَعيُنَ النّاسِ وَاستَر‌هَبوهُم وَجاءو بِسِحرٍ‌ عَظيمٍ  ١١٦﴾...سورة الاعراف

’’(حضرت موسیؑ) نے کہا تم ڈالو۔ پس جب (جادوگروں نے) ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کر دی اور انہیں ڈرا دیا اور ایک طرح کا بڑا جادو لائے۔‘‘

۳۔۔۔﴿قالَ أَجِئتَنا لِتُخرِ‌جَنا مِن أَر‌ضِنا بِسِحرِ‌كَ يـٰموسىٰ  ٥٧﴾...سورة طه

’’فرعون نے کہا: اے موسیٰ! کیا تو ہمیں اپنے جادو سے ہمارے ملک سے نکالنے کےلیے آیاہے۔‘‘

۴۔۔۔ فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِثْلِهِ

’’سو ہم بھی تیرے مقابلہ میں ایک ایسا ہی جادو لائیں گے۔‘‘

۵۔۔۔ حضرت سلیمان کے عہد میں جادو کا ثبوت:

﴿وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيـٰطينُ عَلىٰ مُلكِ سُلَيمـٰنَ ۖ وَما كَفَرَ‌ سُلَيمـٰنُ وَلـٰكِنَّ الشَّيـٰطينَ كَفَر‌وا يُعَلِّمونَ النّاسَ السِّحرَ‌ ...١٠٢﴾...سورة البقرة

’’اور سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت میں شیطان جو پڑھا کرتے تھے اس کی پیروی کرنے لگے حالانکہ سلیمان کافر نہ تھے۔ البتہ یہ شیطان کافر تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے۔‘‘

۶۔۔۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے بھی دل پذیر وعظ اور رنگین بیانی کو سحر کے ساتھ تشبیہ دی ہے، فرمایا:

ان من البیان لسحرا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: ۵۷۶۷)

قرآن کی آیات کریمہ، صحیح البخاری، اکابر مفسرین، شارحین اور علماء عقائد کی مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوا کہ جادو ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ جس کا انکار ہرگز صحیح نہیں، تاہم اس کی تاثیر مشیتِ الٰہی کے ساتھ مشروط ہے بذات خود مؤثر نہیں۔

سوال ثانی:رہا یہ سوال کہ کیا واقعی رسول اللہﷺ پر جادو چل گیا تھا۔ تو جہاں تک رسول اللہﷺ پر جادو کے ذکر پر احادیث صحیحہ کی کثرت، ثبوت اور اس واقعہ کی تاریخی حیثیت کا تعلق ہے تو یہ واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور بقول مولانا مودودیؒ علی تنقید سے اس کو اگر غلط ثابت کیا جا سکتا ہو تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

غرض راقم السطور کے مطالعہ اور تصفح کے مطابق حضرت عائشہ صدوقہ، حضرت زید بن ارقم اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے صحیح البخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، مسند عبدالرزاق، مسند حمیدی، سنن بیہقی، طبرانی، ابن سعد، ابن مروویہ، مصنف ابن ابی شیبہ، حاکم، عبد بن حمید وغیرہم محدثین نے اتنی مختلف اور کثیر تعداد سند اسناد نقل فرمائی ہیں کہ کہ اس کا نفس مضمون تواتر کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔

ان کتب احادیث کے علاوہ تفسیر ابن کثیر، ج:۴سورۃ الفلق،ص:۶۱۲۔ تفسیر احسن التفاسیر، جض۷،ص:۳۳۲۔ تفسیر روح المعانی، ج:۵،ص:۳۰، ص:۳۲۵،۳۲۶۔ تیسیر الکریم الرحمٰن، ج:۱ص:۵۷۔ تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، توضیح البیان، ص:۸۴۸ اور شرح العقیدہ الطحاویہ، ص۷۶۴ وغیرہ میں نہ صرف یہ واقعہ مفصل منقول ہے بلکہ دورِ قدیم وجدید کے معتزلہ اور دور ماضی اور حاضر کے منکرین حدیث کے جملہ  اعتراضات باردہ اور خدشات کا شافی، کافی اور مدلل جواب بھی موجود ہے۔

مولانا مودودی نے اس کی تمام تفصیلات جو فتح الباری شرح صحیح البخاری باب السحر ولکن الشیطین کفروایعلمون الناس السحر، ج:۱۰، ص:۲۲۱ و۲۲۵ تا ۲۲۸ وباب ھل یستخرج السحر، ج:۱۰، ص۲۳۲ میں آئی ہیں۔ ان کو مجموعی طور پر مرتب کر کے ایک واقعہ کی صورت اچھوتے اسلوب میں بڑی خوبی کے ساتھ یوں پیش فرمایا ہے۔

صلح حدیبیہ کے بعد جب نبیﷺ مدینہ واپس لائے۔ تو محرم ۷ھ میں یہودیوں کا ایک وفد مدینہ آیا اور ایک مشہور جادوگر لبید بن اعصم سے قبیلہ  بن زریق سے تعلق رکھتا تھا، کہا کہ محمد (ﷺ) نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ تمہیں معمول ہے۔ ہم نے ان پر بہت جادو کرنے کی کوشش کی مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اب تمہارے پاس آئے ہیں کیونکہ تم ہم سے بڑے جادوگر ہو اور یہ تین اشرفیاں حاضر ہیں۔ انہیں قبول کر لو اور محمد (ﷺ) پر ایک زور کا جادو کر دو۔ (فتح الباری، ج۱۰ ص۲۲۶)

اس زمانہ میں حضورﷺ کے ہاں ایک یہودی لڑکا خدمت گار تھا۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۴، ص۶۱۲) اس سے ساز باز کر کے ان لوگوں نے حضورﷺ کی کنگھی کا یک ٹکڑا حاصل کر لیا جس میں آپ کے موئے مبارک تھے۔ انہیں بالوں اور کنگھی کے دندانوں پر جادو کیا گیا۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ لبید بن اعصم نے خود جادو کیا تھا۔ اور بعض میں یہ ہے کہ اس کی بہنیں اس سے زیادہ جادوگرنیان تھیں۔ تفسیر احسن التفاسیر میں بہنوں کی بجائے بیٹیوں کا ذکر ہے۔ ج:۷،ص:۳۳۲ بہرحال ان دونوں صورتوں میں جو صورت بھی ہو عمل میں لایا گیا۔

اس جادو کو ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر لبید نے بنی زریق کے کنوئیں ذروان یا ذی اروان نامی کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا۔ اس کا جادو کا اثر نبیﷺ پر ہوتے ہوتے ایک سال لگ گیا۔ دوسری ششماہی میں کچھ تغیر مزاج محسوس ہونا شروع ہوا۔ آخر چالیس (فتح الباری، ج۱۰ ص۲۲۶) دن سخت اور تین دن زیادہ سخت گزرے مگر اس کا زیادہ اثر جو حضورﷺ پر ہوا وہ بس یہ تھا کہ آپ گھلتے جا رہے تھے۔ (بیھقی وفتح الباری، ج۱۰، ص۲۲۷) کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ وہ کر لیا ہے مگر نہیں کیا ہوتا تھا۔ اپنی زواج کے متعلق خیال فرماتے کہ آپ ان کے پاس گئے ہیں مگر نہیں گئے ہوتے تھے۔ (فتح الباری، ج:۱۰ ص۲۳۲) اور بعض دفعہ آپ کو اپنی نظر پر شبہ ہوتا تھا کہ کسی کو دیکھا ہے مگر نہیں دیکھا ہوتا تھا۔

یہ تمام اثرات آپ کی ذات تک محدود رہے حتی کہ دوسرے لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ آپﷺ پر کیا گزر رہی ہے۔آپ کے نبی ہونے کی حیثیت سے آپ کے فرائض کے اندر کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ (فتح الباری، ج۱۰، ص۲۲۷)

کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اس زمانہ میں آپ کوئی آیت بھول گئے ہوں یا کوئی آیت غلط پڑھ ڈالی ہو یا اپنی صحبتوں میں اور اپنے وعظوں اور خطبوں میں آپ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہو گیا ہو۔ یا کوئی ایسا کلام آپ نے وحی کی حیثیت سے پیش کر دیا ہو جو فی الواقع نازل نہ ہوا ہو۔ یا کوئی نماز آپ سے چھوٹ گئی ہو اور اس کے متعلق آپ نے سمجھ لیا ہو کہ پڑھ لی ہے مگر نہ پڑھی ہو۔

قال الحافظ یؤتد جمیع ما تقدم انه لم ینقل عنه فی خبر من الاخبار انه قال قولا وکان بخلاف ما اخبربه۔ (فتح الباری، ج۱۰، ص۲۲۷)

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ کسی روایت میں یہ منقول نہیں کہ آپﷺ نے اپنے کسی فرمان کے خلاف کوئی بات فرمائی ہو۔

ایسی کوئی بات معاذاللہ پیش آ جاتی تو دھوم مچ جاتی اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہو جاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کر سکتی تھی اسے ایک جادوگر نے چت کر دیا۔ لیکن آپﷺ کی حیثیت نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔ اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپﷺ اپنے طور پر اسے محسوس کر کے پریشان ہوتے رہے۔ آخر کار ایک روز آپﷺ حضرت عائشہ کے ہاں تھے آپ نے بار بار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ اسی حالت میں نیند آ گئی یا غنودگی طاری ہو گئی اور پھر بیدار ہو کر آپ نے حضرت عائشہ سے کہا کہ میں نے جو بات اپنے رب سے پوچھی تھی وہ اس نے مجھے بتا دی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا وہ کیا بات ہے؟ آپﷺ نے فرمایا دو (فرشتے) دو آدمیوں کی صورت میں میرے پاس آئے۔ ایک سرہانے کی طرف تھا اور دوسرا پائنتی کی طرف۔ ایک نے پوچھا انہیں کیا ہوا؟ دوسرے نے جواب دیا: ان پر جادو ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کس نے کیا ہے؟ جواب دیا لبید بن اعصم نے۔ اس نے پوچھا کس چیز میں کیا ہے؟ جواب دیا کنگھی اور بالوں میں ایک نرکھجور کے خوشے کے غلاف کے اندر۔ پوچھا وہ کہاں ہیں؟ جواب دیا بنو زریق کے کنوئیں ذی اروان یا ذروان کی تہہ کے پتھر کے نیچے ہے۔ (صحیح البخاری، ج۸، ص۳۰ وفتح الباری، ج۱۰ ص۲۳۶) پوچھا اب اس کے لیے کیا کیا جائے؟ جواب دیا کہ کنویں کا پانی سونت لیا جائے۔ پھر پھتر کے نیچے سے اس کو نکالا جائے۔ اس کے بعد نبیﷺ نے حضرت علی، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت زیبر رضی اللہ عنہم کو بھیجا۔ (قالہ ابن سعد فتح الباری، ج۱۰، ص۲۲۵) ان کے ساتھ جبیر بن عیاض زرقی اور قیس بن محصن زرقی (یعنی بنوزریق کے دو اصحاب) بھی شامل ہو گئے۔ بعد میں میں خود نبیﷺ چند اصحاب کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ پانی نکالا گیا اور وہ غلاف برآمد کر لیا گیا۔ اس کنگھی اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں۔ (اخرجہ البیھقی کذا فی الفتح الباری، ج۱۰، ص۲۲۵) اور موم کا پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ آپ معوذتین پڑھیں۔ چنانچہ آپﷺ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک گرہ کھولی جانی اور پہلے سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرہیں کھل گئیں۔ ساری سوئیاں نکل گئیں اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر بالکل ایسے ہوگئے جیسے کوئی شخص بندھا ہوا پھر کھل گیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے لبید کو بلا کر باز پرس کی۔ اس نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور آپﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ کیونکہ اپنی ذات کے لیے آپ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ یہی نہیں بلکہ آپﷺ نے اس معاملہ کا چرچا کرنے سے بھی یہ کہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اللہ نے شفا دے دی ہے، اب میں نہیں چاہتا کہ کسی کے خلاف لوگوں کو بھڑکاؤں۔ یہ ہے سارا قصہ اس کا جادو کا۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں، جو آپ کے منصب نبوت میں قادح ہو۔ (تفہیم القرآن، ج۶ تفسیر سورۃ الفلق)

۱۔۔۔۔۔ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر اس قصہ پر وارد شدہ اعتراضات کے جواب میحں لکھتے ہیں:

فظھر بھذا ان السحر انما تسلط علی جسدہ وظواھر جوارحه لا علی تمیزہ ومعتقدہ۔ (فتح الباری، ج۱۰، ص۲۲۷)

یعنی صحیح بخاری میں جادو سے متعلق احادیث پر تفصیلی، علمی اور عقلی گفتگو کے بعد فرماتے ہیں کہ اس بحث سے ظاہر ہوا کہ اس جادو کا اثر جتنا کچھ ہوا وہ صرف رسول اللہﷺ کے بدن مبارک اور اعضا تک محدود تھا اور آپ کی عقل، تمیز اور معتقد پر ہرگز نہ تھا۔ یعنی ذات محمدﷺ پر تھا نبوت محمدﷺ اس سے بالکل گیر متاثر اور محفوظ رہی۔

نیز فرماتے ہیں کہ جادو کا اثر صرف آپ کی بینائی پر پڑا تھا۔ آپ کی عقل، قلب اور اعتقاد اس سے بالکل غیر متاثر اور محفوظ رہے۔ جیسا کہ یحییٰ بن بعمر اور سعید بن مسیب کی مرسل روایات میں اس کی تصریح موجود ہے۔

عن یحیی بن یعمر عن عائشۃ سحر النبیﷺ حتی انکر بصیرہ وفی مرسل سعید بن المسیب حتی کادینکر بصیرہ۔ (فتح الباری ج۱۰، ص۲۲۷)

کہ جادو سے صرف آپ کی بینائی کچھ متاثر ہوئی تھی۔

۲۔۔۔ قاضی عیاض اس اعتراض کے جواب میں رقم فرماتے:

وقد جاءت روایات ھذا الحدیث مبینة ان السحر انما تسلط علی جسدہ وظواھر جوارحه لا علی عقله وقلبه واعتقادہ۔۔۔۔ وکل ما جاء فی الروایات من انه یخیل الیه شیئا ولم یفعله ونحوہ فمحمول علی التخیل بالبصر ولا یخلل تطرق الی العقل ولیس فی ذلك لبسا علی الرسالة ولا طعنا لاھل الضلالة۔ (فتح الباری، ج۱۰ ص۲۲۷۔ ونیل الاوطار، ج:۷،ص۱۸۹)

’’جادو کی تمام روایات سے یہی واضح ہوتا ہے کہ جادو کا اثر جو کچھ بھی تھا، وہ صرف آپ کے بدن مبارک ظاہر جوارح پر ہی تھا آپ کی عقل، قلب اور اعتقاد بالکل محفوظ رہے۔ تمام روایت میں صرف یہ آتا ہے کہ آپ کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ کر لیا ہے، مگر نہیں کیا ہوتا تھا (اسی طرح اپنی ازواج کے متعلق خیال فرماتے کہ آپ ان کے پاس گئے ہیں) وغیرہ تو یہ سب بینائی کے متاثر ہونے پر محمول ہے، اس کا اثر آپ کی عقل تک ہرگزپہنچا۔ اتنے سے معمولی اثر سے آپ سے آپ کے منصب رسالت پر کوئی شبہ وارد نہیں ہوتو اور نہ کسی گمراہ ٹولے کے ہیے منصب رسالت پر کسی قسم کے طعن کی ادنیٰ سی گنجائش نکلتی ہے۔‘‘

۳۔۔۔ علامہ مازری کا جواب:

وَهَذَا كُلُّهُ مَرْدُودٌ لِأَنَّ الدَّلِيلَ قَدْ قَامَ عَلَى صِدْقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يُبَلِّغُهُ عن اللہ تعالیٰ وعلی عصمته فی التبلیغ والمعجزات شاھدات بتصدیقہ فتجویز ما قام الدلیل علی خلافه باطل واما ما  يَتَعَلَّقُ بِبَعْضِ أُمُور الدُّنْيَا الَّتِي لَمْ يُبْعَثْ لِأَجْلِهَا وَلَا كَانَتِ الرِّسَالَةُ مِنْ أَجْلِهَا فَهُوَ فِي ذَلِكَ عُرْضَةٌ لِمَا يَعْتَرِضُ الْبَشَرَ كَالْأَمْرَاضِ فَغَيْرُ بَعِيدٍ أَنْ يُخَيَّلَ إِلَيْهِ فِي أَمْرٍ مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَامالہ حقیقۃ مع عصمته عن مثل ذالك فی امورالدنیا۔ (فتح الباری، ج۱۰، ص۲۲۷)

۴۔۔۔۔۔ شیخ الاسلام ابن قیم جواب دیتے ہیں:

قد انکر ھذا طائفة من الناس وقالوا لا یجوز ھذا علیه وظنوہ تقاصا وعیبا ولیس الامر کما زعموا بل ھو من جنس ما کان یعتریہ من الاسقام والاوجاع وھو مرض من الامراض واصابته به کاصابته بالسم ولا فرق بینھا وقال القاضی عیاض والسحر مرض من الامراض وعارض من العلل یجوز علیه کانواع الامراض مما لا ینکرولا یقدح فی نبوته واما کونه یخیل الیه انه فعل الشیء ولم یفعله فلیس ھذا ما یدخل علیه داخلة فی شیء من صدقه لقیام الدلیل والاجماع علی عصمته من ھذا وانما ھذا فی ما یجوز طروہ علیه فی امر دنیاہ التی لم یبعث لسببھا ولا فضل من اجلھا وھو فیھا عرضة للافات کسائر فغیر بعید ان یخیل اللہ من امورھا مالا حقیقة له ثم ینجلی عنه کما کان۔ (زاد المعاد، ج۴ ص۱۲۴۔ وروح المعانی، ج۱۵، ص۲۲۶و۲۲۷)

کچھ لوگ (معتزلہ اور منکرین حدیث منصب نبوت کے حق میں نقص اور عیب سمجھتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے نبیﷺ پر جادو چل جانے کا انکار کیا ہے۔ مگر ان کا یہ زعم صحیح نہیں کیوں کہ جادو ایک مرض ہے۔ جس طرح آپ کو بحثیت بشر دوسری امراض اور عوارض لاحق ہوتے رہے اسی طرح آپ جادو کی مرض کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ یعنی جس طرح آپ پر زہر اثر کر گیا تھا اسی طرح آپ جادو کی زد میں آ گئے اور جس طرح بخار اور دوسرے امراض بقول قاضی عیاض منصب نبوت کے منافی نہیں، اسی طرح جادو بھی قادح نہیں۔ رہا آپ کا کسی کام کے لیے یہ فرمانا کہ میں یہ کام کر چکا ہوں مگر نہیں کیا ہوتا تھا تویہ خیال منصب نبوت میں کسی خلل کا باعث ہرگز نہیں۔ کیونکہ میں آپ کی نبوت اور صداقت نہ صرف ناقابل تردید بکثرت دلائل قائم ہیں بلکہ اس پہلو سے آپ کی عصمت پر اجماع ہو چکا ہے۔ اور یہ چیز ان امور میں سے ہے جو دنیوی امور میں آپ پر واقع ہو سکتے ہیں، کیون کہ آپ ان کی وجہ سے مبعوث نہیں ہوئے اور نہ آپ کا فضل وکمال ان اسباب کا مرہون منت ہے۔ چوں کہ آپ بحثیت بشر دوسرے انسانوں کی طرح آفات کی زد میں ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں کہ آپ کو کوئی ایسا خیال آ جائے جس کی کوئی حقیقت نہ ہو بعدازاں وہ خیال ختم بھی ہو جائے۔

۵۔۔۔۔ سید احمد محدث دہلوی فرماتے ہیں:

اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا اثر حقیقی طور پر دنیا میں ہوتا ہے۔ فرقہ معتزلہ اس کا مخالف کیونکہ اس اثر کو خیالی بتاتے ہیں، مگر اہل سنت نے اپنے مذہب کو بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ (تفسیر احسن التفاسیر، ج۷، ص۳۳۳)

۶۔۔۔ حضرت الاستاذ عبدالرشیدحفظہ اللہ ارقام فرماتے ہیں: شان نزول کی روایات میں ہے کہ لبید بن اعصم اور بعض یہودی عورتوں نے کچھ منتر پڑھ کر سحر کر دی اتھا۔ اس پر یہ آیات (سورۃ الفلق) نازل ہوئیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ آیات پڑھ کر اس سحر کو باطل کر دیا۔ رسول اللہﷺ کا سحر سے جو مادیات ہی کی ایک سفلی قسم ہے، متاثر ہو جانا بالکل ایسے ہی بات ہے جیسے ذات الجنب، ملیریا درد اعصاب سے متاثر ہو جاتا ہے اور نبوت کے منافی ہونے کا کوئی ادنیٰ پہلو بھی اس میں نہیں۔ کیونکہ اسباب طبعی سے اہل باطل کا اثر اہل حق پر بھی پڑ سکتا ہے اور ایسی تاثیرات حق وباطل کا معیار ہرگز نہیں بن سکتیں۔ (تفسیر توضیع القرآن، ص۸۴۸)

نوٹ: تفسیر راقم الحروف کی تصحیح شدہ ہے اور بڑی ہی مفید ہے۔

۷۔۔۔ علامہ شبیر احمد عثمانی رقم طراز ہیں:

اس سحر کے علاج کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ دو سورتیں الفلق والناس نازل فرمائیں اور ان کی تاثیر سے وہ باذن اللہ زائل ہو گیا۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ صحیحین میں موجود ہے۔ جس پر آج تک کسی محدث نے جرح نہیں کی اور اس طرح کی کیفیت منصب رسالت کے قطعاً منافی نہیں۔ جیسے آپﷺ کبھی کبھی بیمار ہوتے۔ بعض اوقات غشی طاری ہو گئی۔ یا کئی مرتبہ نماز میں سہو ہوگیا۔ اور آپﷺ نے فرمایا:

«إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي»

’’میں بھی ایک بشر ہی ہوں جیسے کہ تم بھولتے ہو میں بھی بھولتا ہوں میں بھول جاؤں تو یاد دلا دیا کرو۔‘‘ کیا اس غشی کی کیفیت اور سہوونسیان کو پڑھ کر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اب وحی پر اور آپ کی دوسری باتوں پر کیسے یقین کریں؟ ممکن ہے ان میں بھی سہوونسیان اور بھول چوک ہو گئی ہو۔ اگر وہاں سہوونسیان کے ثبوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ وحی الٰہی اور فرائض تبلیغ میں شکوک وشبہات پیدا کرنے لگیں تو اتنی بات سے کہ احیاناً آپ ایک کام کر چکے ہوں اور خیال گزرے کے نہیں کیا۔ کس طرح لازم آیا کہ آپ کی تمام تعلیمات اور فرائض بعثت سے اعتبار اٹھ جائے۔ یاد رکھئے! سہوونسیان مرض اور غشی وغیرہ عوارض خواص بشریت سے ہیں۔ اگر انبیاء بشر ہیں تو ان خواص کا پایا جانا اس کے رتبہ کو کم نہیں کرتا یہ ضرور ہے کہ جب ایک شخص کی نسبت دلائل قطعیہ اور براہین نیرہ سے ثابت ہو کہ وہ یقیناً اللہ کا سچا رسول ہے تو ماننا پڑے گا کہ اللہ نے س کی عصمت کا تکفل کیا ہے۔ اور وہی اس کو اپنی وحی کے یاد کرانے، سمجھانے اور پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ ناممکن ہے کہ اس کے فرائض، دعوت وتبلیغ کی انجام دہی میں کوئی طاقت خلل ڈال سکے۔ نفس یا شیطان، مرض ہو یا جادو کوئی چیز ان امور میں رخنہ اندازی نہیں کر سکتی۔ جو مقصد بعثت کے متعلق ہیں۔ کفار جو انبیاء کو محسور کہتے تھے چوں کہ ان کا مطلب نبوت کا ابطال اور یہ ظاہر کرتا تھا کہ جادو کے اثر سے ان کی ہوش ٹھکانے نہیں رہی۔ گویا مسحور کے معنی مجنون کے لیتے تھے اور وحی الٰہی کو جوش جنون قرار دیتے تھے۔ العیاذ باللہ! اس لیے قرآن میں ان کی تکذیب وتردید ضروری ہوئی۔ [مترجم قرآن، ص:۸۰۹]

۸۔۔۔۔ مولان مودودی صاحب اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

یہ سارا قصہ اس جادو کا۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصب نبوت میں قادح ہو۔ ذاتی حیثیت سے اگر آپ کو زخمی کیا جا سکتا تھا جیسا کہ جنگ احد میں ہوا۔ اگر گھوڑے سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے، جسا کہ جنگ احد میں ہوا۔ اگر گھوڑے سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اگر آپﷺ کو بچھو کاٹ سکتا تھا، جیسا کہ کچھ اور احادیث میں وارد ہوا ہے اور ان میں سے کوئی چیز بھی امن وتحفظ (عصمت) کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا تو آپﷺ پر اپنی ذات حیثیت میں جادو کے اثر سے بیمار بھی ہو سکتے تھے۔ نبی پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے۔ یہ بات تو قرآن مجید بھی ثابت ہے۔ سورۂ اعراف میں فرعون کے جادوگروں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں جب وہ آئے تو انہوں نے ہزار ہا آدمیوں کے اس پورے مجمع کی نگاہوں پر جادو کر دیا جو وہاں دونوں کا مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔

﴿سَحَروا أَعيُنَ النّاسِ... ﴿١١٦ ... سورة الأعراف

اور سورۃ طٰہ میں بھی ہے کہ جو لاٹھیاں اور رسیاں انہوں نے پھینکیں تھیں، ان کے متعلق بیان ہوا کہ عام لوگوں نے ہی نہی بلکہ حضرت موسیٰ نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آ رہی ہیں۔ اور اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام خوف زدہ وہ گئے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی خوف نہ کرو تم ہی غالب رہو گے ذرا اپنا عصا پھینکو۔

﴿فَإِذا حِبالُهُم وَعِصِيُّهُم يُخَيَّلُ إِلَيهِ مِن سِحرِ‌هِم أَنَّها تَسعىٰ ﴿٦٦﴾ فَأَوجَسَ فى نَفسِهِ خيفَةً موسىٰ ﴿٦٧﴾ قُلنا لا تَخَف إِنَّكَ أَنتَ الأَعلىٰ ﴿٦٨﴾ وَأَلقِ ما فى يَمينِكَ ...٦٩﴾...سورة طه

’’یکایک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے موسی کودوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے۔ ہم نے کہا مت ڈرو، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے ابھی ان کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلنے لگ جاتا ہے۔‘‘

رہا یہ اعتراج کہ یہ تو کفار مکہ کے اس الزام کی تصدیق ہو گئی کہ نبیﷺ کو سحر زدہ آدمی کہتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفار آپ کو سحر زدہ آدمی اس معنی میں نہیں کہتے تھے کہ آپ کسی جادوگر کے اثر سے بیمار ہو گئے ہیں۔ بلکہ اس معنی میں کہتے تھے کہ کس جادوگر نے معاذ اللہ آپ کو پاگل کر دیا ہے۔ اور اسی پاگل پن میں آپ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں اور جنت ودوزخ کے افسانے سنا رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اعتراض ایسے معامہ پر سرے سے چپساں ہی نہیں ہوتا جس کے متعلق تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذاتِ محمدﷺ پر تھا، نبوت محمدﷺ اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔ تفہیم القرآن پیر کرم شاہ صاحب معترضین کے جواب میں فرماتے ہیں۔

ان کے اعتراضات اور شکوک کے بارے میں اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک حیثیت نبوت اور دوسری حیثیت بشریت۔ عوارض بشری کا ورود ذات اقدس پر ہوتا رہتا تھا۔ بخار، درد، چوٹ کا لگنا، دندانِ مبارک کا شہید ہونا، طائف میں پنڈلیوں کا لہولہان ہوتا اور احدمیں جبین سعادت کازخمی ہونا۔ یہ سب واقعال تاریخ کے صفحات کی زینت ہیں۔ یہ لوگ (معترضین) بھی ان سے انکار کی جرأت نہیں کر سکتے اور ان عوارض سے حضور کی شانِ رسالت کا کوئی پہلو اس سے متاثر نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا کہ اس جادو سے حضور کوئی آیت بھول جاتے یا الفاظ میں تقدیم وتاخیر کر دیتے یا قرآن میں اپنی طرف سے کوئی جملہ بڑھا دیتے یا ارکان نماز میں ردوبدل ہوجاتا تو اسلام کے بد خواہ اتنا شوروغل مچاتے کے الامان والحفیظ۔

بطلان رسالت کے لیے یہی مہلک ہتھیار کافی تھا۔ انہیں دعوت اسلامی کو ناکام کرنے کے لیے مزید کسی ہتھیار کی ضرورت نہ رہتی۔ لیکن اس قسم کا کوئی واقعہ کسی حدیث اور تاریخ کی کتاب میں موجود نہیں۔ دشمنانِ اسلام نے آج تک جتنی کتابیں پیغمبر اسلامﷺ کے بارہ میں لکھی ہیں ان میں بھی اس قسم کا کوئی واقعہ درج نہیں۔ (ضیاء القرآن،۵ ص۷۲۵)

خلاصۂ کلام:

ائمہ لغت قرآنِ مجید، احادیث صحیحہ، فقہائے مذاہب، ائمہ محدثین اور جمہور علمائے اسلام کی تصریحات کے مطابق جادو ایک ٹھوس حقیقت ہے اور دیگر امراض وادوجاع کی طرح ایک مرض مگر بذاتِ خود مؤثر نہیں، بلکہ مشیت الٰہی کے ساتھ مشروط ہے۔ اہل سنت کے نزدیک رسول اللہﷺ کی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک حیثیت بشریت اور دوسری حیثیت نبوت۔ عوارض بشری بخار وغیرہ کا ورود ذاتِ اقدسﷺ پر ہوتا رہتا تھا۔ منکرین جادو بھی ذاتِ اقدس پر عوارض بشری کے ورود کے قائل ہیں۔ اور ان عوارض سے رسول اللہﷺ کی شانِ رسالت اور حیثیت نبوت پر قطعاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہان بھی جادو کا اثر رسول اللہﷺ کی جسمانی صحت تک محدود رہا۔ آپ کی عقل، قلب اور اعتقاد وغیرہ رسالت کا کوئی پہلو اس سے متاثر نہ تھا۔ بالفاظ دیگر اس جادو کا اثر ذاتِ محمدﷺ پر تھا۔ نبوت محمدﷺ اس سے بالکل غیر متاثر رہی، یعنی آپ کی عقل، تمیز، قلب اور اعتقاد بالکل محفوظ رہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص259

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ